کابل اور قندھار کے اختلافات

کمال کی بات ہے کہ جس قطعیت کے ساتھ پاکستان میں افغانستان کے سیاسی معاملات پر بات ہو رہی ہے اس پر خود افغانستان کے قائدین حیران ہیں۔ اس سے بھی زیادہ کمال کی بات یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم افغان شہری بھی اسی کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔ "بڑی خبر” "اندر کی خبر” اور "خاص خبر” یہ بتائی جا رہی ہے کہ افغان وزیرداخلہ سراج الدین حقانی نے استعفی دے دیا ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ خواتین کی تعلیم پر پابندی پر وزیرداخلہ سراج الدین حقانی نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور افغان طالبان کے منہ پر استعفی دے مارا۔ یہاں تک تو پھر بھی چلو برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ پاکستان کے اینکرز میں "تین سمتی” تجزئیے اب عام ہوتے جا رہے ہیں۔

"تین سمتی” تجزیوں کی واردات کیا ہے؟ چلیں مختصرا اس پر بات کرتے ہیں تاکہ آگے بات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ جو بڑے بڑے پلیٹ فارم پر کچھ اینکرز موجود ہیں ان کا وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ تین ممکنات کو ذہن میں رکھ کر بات کرتے ہیں۔ مثلا بارش کی پیشن گوئی کرنی ہو تو یہ تین باتیں کریں گے جیسے میرا خیال ہے کہ شدیدبارش نے برسنا ہی ہے بادلوں سے صاف نظر آرہا ہے۔ لیکن، لیکن بادل حرکت میں رہتے ہیں جس سے ظاہری بات ہے بارش کا برسنا ناممکن ہوگا۔ اس کے بعد ایک اور رخ بھی بیان کردیتے ہیں۔ دیکھیں ایک بات تو طے ہے اور وہ یہ کہ بارش برسے گی لیکن یہ بارش کہیں ہو گی اور کہیں نہیں۔ یہ ہو سکتا ہے ایک ہی شہر میں ایک حصے میں بارش ہو اور ایک میں نہیں ہو۔ اب اس میں مقررہ وقت بھی نہیں ہے ہو سکتا ہے ایک وقت میں کچھ حصے میں بارش ہو اور نہ ہو۔ تب پروڈیوسر کو کہا جاتا ہے۔ ہاں بھائی وہ تیسری لائن نکال دو اور اس کے اوپر تاریخ ڈال دو۔ پھر حضرت سکرین پر آکر مسکرا کر کہتے ہیں۔ وہی ہوا جو میں نے کہا تھاذرا پہلے وہ سن لیتے ہیں۔ ناظرین واہ واہ میں باقی دو صورتوں کو یاد کریں یہ تو ناممکن ہے۔


بہرحال ہم نے سراج الدین حقانی کی خواتین کی تعلیم کے حوالے سے بات مان لی پھر اس کے نتیجے میں ان کے استعفی کو بھی مان لیا لیکن یہاں تک بات ہوئی کہ جی ان کے چچا وزیر مہاجرت خلیل حقانی کی موت دراصل قندھار گروپ کی کارستانی ہے۔ مطلب کچھ بھی۔


بات یہاں تک پہنچی تو بے اختیار کابل اور قندھار کے پرانے ساتھیوں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور سوال رکھا۔ پہلے تو وہ قہقہہ مار کر ہنس دیئے۔ میں نے کہا اختلاف تو ہے ناں؟ انہوں نے کہا اختلاف تو ہے جس طرح ہر کابینہ میں ہوتا ہے۔ لیکن تعلیم اور اس حد تک کہ ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیں ابھی تک تو وہ نوبت نہیں آئی۔ تو پھر ہوا کیا ہے۔


افغان ذرائع کا ماننا ہے کہ وزیرداخلہ اور قندھار میں موجود افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے بیچ میں معاملات بجٹ پر تلخی کی طرف گئے۔ وزارت داخلہ کو جو فنڈز دیئے جا رہے تھے وہ ناکافی تھے۔وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کے پاس جنگجووں کی اچھی خاصی تعداد تھی جو گزشتہ بیس سالوں میں بھرپور طریقے سے لڑی اور جس نے سینکڑوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا ان کے خاندانوں کو اور ان کے جوانوں کو پیسے چاہیئے تھے روزگار چاہیئے تھا لیکن آسامیوں کی قلت اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان کے ساتھیوں کا یہ ماننا تھا کہ انہیں ان کا حق نہیں مل رہا۔ دوسری جانب وزارت دفاع کو بھرپور فنڈز مہیا کیے جا رہے تھے۔ وزارت دفاع دراصل ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب کے پاس ہے۔ تو یہ تاثر بنا کہ شاید قندھار کی لیڈرشپ کو بس اپنے لوگوں کی پڑی ہے اور ان پر ہی وہ مہربان ہیں۔ عمومی فنڈز بھی قندھار کی لیڈرشپ کے پاس جا رہی تھی اور کابل سمیت دیگر صوبوں کو نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ تو یہ ایک تلخی مسلسل موجود رہی۔ اس میں طالبات کی تعلیم جیسا ایشو کبھی حائل نہیں ہوا۔


افغان ذرائع کے مطابق ایک اور کام بھی ہوا۔ دراصل امریکہ اور داعش کے خلاف بڑی کامیابیاں خصوصا ننگرہار، کنڑ، کابل، تخار، پکتیا، پکتیکا اور خوست سمیت دیگر صوبوں میں حقانی نیٹ ورک کی زیرکمان "بدری 313” نامی فورس نے حاصل کی۔ یوں سمجھیے کہ یہ تمام تر ہتھیاروں اور تربیت سے مزین ایک طاقتور فورس تھی۔ تاہم افغان طالبان کی آمد کے بعد ان کو نظر انداز کیا جانے لگا۔ اس دوران اس فورس کی قیادت کے بارے میں بھی قندھار کی جانب سے سوالات اٹھائے جانے لگے۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ ان کے لیے کوئی فنڈز دستیاب نہیں تھے۔ اس کے بعد ہونا کیا تھا بدری 313 بریگیڈ پس منظر میں چلی گئی۔ آج آپ ان کا نام بھی نہیں سنتے۔ اگر 2021ء کے آرپار سالوں کو دیکھیں تو آپ کو یہ بہت فعال نظر آئے گی۔ کچھ ذرائع نے یہ بھی دعوی کیا کہ قندھار کی قیادت نے باقاعدہ اس بریگیڈ کو غیرمسلح کرنے کے احکامات جاری کیے تاہم اس حوالے سے مذکورہ ذرائع نے کوئی ٹھوس شواہد نہیں دیئے۔ البتہ اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ وزیرداخلہ سراج حقانی اور سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ آخوند کے بیچ میں کافی سخت گفتگو ہوئی تھی۔ جس کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ واضح رہے کہ اس دوران امریکہ نے بھی چالیس ملین ڈالرز کی امداد افغانستان کے لیے روک دی۔ اس دوران یہ بات بھی یہاں پہنچی کے اس امداد کے متبادل کے طور پر شاید امارات کی جانب سے امداد فراہم کی جائے جس کی ابھی تک تصدیق نہیں کی گئی۔ بہرحال اگراقتصادی معاملات بگاڑ کی طرف جائیں گے تو یقینا اس کے سیاسی اثرات افغانستان کی طالبان تحریک پر واضح طور پر پڑیں گے۔ جہاں تک خواتین کی تعلیم کا معاملہ ہے وہ قطعا اتنا سنگین نہیں ہے جیسا کہ وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے۔ البتہ بظاہر جو اختلافات نظر آ رہے ہیں وزیرداخلہ سراج الدین حقانی نے دیگر سیاسی امور کے ساتھ ساتھ اخلاقی طور پر اس کو بھی ایک وجہ کے طور پر رکھا ہے۔ ایک مجموعی تاثر جو افغانستان میں اس حوالے سے موجود ہے وہ یہ کہ دونوں رہنما ایک اعصابی جنگ کے راستے پر گامزن ہیں۔ دونوں اطراف سے مرحوم اجمل خٹک کے بیاں کردہ ٹپہ والا ماحول ہے کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ


خه ده چه ستا دغاړې اوشوه
چه ملامته درته زه نه یم مینه


یعنی اچھا ہوا تیری جانب سے پہل ہوئی اب اس میں مجھے کوئی ملامت نہیں کرسکتا۔


کیا یہ بات حد درجہ بگڑ سکتی ہے؟ یہ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اگر بگڑ گئی تو پھر دور تلک جاسکتی ہے۔عالمی قوتیں جو اس خطے میں ایک جنگ کو دیکھنا چاہتے ہیں جو ایران، روس، چین اور پاکستان کو اس کے پڑوس میں آگ لگا کر جھکسانا چاہتے ہیں یقینی طور پر یہی چاہیں گے۔ کابل میں موجود کچھ مشران کا ماننا ہے کہ بات وہاں تک پہنچنے سے پہلے افغان قوم ایک کوشش ضرور کرے گی۔ ان کا ماننا ہے کہ ہر تحریک میں اس طرح کے چھوٹے موٹے اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں لیکن اگر بات افغانستان کے مستقبل کے فیصلے تک پہنچی تو جرگے کا ایک مکینیزم موجود ہے۔ ایک قومی جرگہ طلب کرکے جو بھی قومی معاملات ہوں ان کو حل کرنے کا موقعہ دیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں