سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک خفیہ اطلاع پر مبنی آپریشن میں ایک انتہائی مطلوب کمانڈر سمیت نو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔
پاک فوج کےشعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ایک بیان کے مطابق آپریشن ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے ٹکواڑہ میں کیا گیا جس میں ایک ‘انتہائی مطلوب ہدف’ کمانڈر شیرین کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ آپریشن 6 اور 7 اپریل کی درمیانی رات کو کیا گیا۔
آپریشن کے نتیجے میں شیرین سمیت کم از کم نو دہشت گرد ہلاک ہوئے اور بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا۔
آئی ایس پی آر نے بتایا کہ دہشت گرد ‘سرغنہ’ 20 مارچ کو کیپٹن حسنین اختر کی شہادت سمیت متعدد دہشت گردانہ منصوبوں میں ملوث تھا۔
آئی ایس پی آر نے کہا کہ آپریشن نے اس گھناؤنے فعل کا بدلہ لیا ہے اور مرکزی مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا ہے۔
علاقے میں کسی بھی دوسرے دہشت گرد کو ختم کرنے یا پکڑنے کے لیے ایک سینیٹائزیشن آپریشن کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے ایک اور بیان کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے 5 اور 6 اپریل کی درمیانی رات کو حسن خیل، شمالی وزیرستان میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا۔
فورسز کے دہشت گردوں سے مقابلے کے دوران ‘شدید فائرنگ کا تبادلہ’ ہوا۔ آپریشن کے نتیجے میں آٹھ دہشت گرد ہلاک جبکہ چار زخمی ہوئے۔
علاقے میں باقی ماندہ دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے سینیٹائزیشن آپریشن کیا گیا۔
آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان مسلسل عبوری افغان حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ سرحد کے اپنی طرف موثر سرحدی انتظام کو یقینی بنائے۔ افغان حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال سے روکے۔
اس سال افغانستان سے سرحد عبور کرتے ہوئے دہشت گردوں سے مقابلے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ شمالی وزیرستان کے غلام خان کلے میں پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران کم از کم 16 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستان نے باضابطہ طور پر طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن کابل میں سفارتی موجودگی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پاکستان کی طرف سے افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں، بشمول تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی، کے بارے میں مسلسل الزامات کی وجہ سے کشیدہ ہیں۔