امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت شام پر عائد امریکی پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں۔ اس اقدام کا مقصد شام کو عالمی مالیاتی نظام میں دوبارہ شامل کرنا اور خانہ جنگی کے بعد اس کی تعمیر نو میں مدد فراہم کرنا ہے۔ یہ امریکی پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کی علامت کی طور پر سامنے آیا ہے۔
مگر وائٹ ہاؤس نے واضح کیا ہے کہ سابق شامی صدر بشار الاسد، ان کے ساتھیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے، منشیات کے اسمگلرز، کیمیائی ہتھیاروں کی سرگرمیوں میں ملوث افراد، داعش سے منسلک افراد، اور ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کے خلاف پابندیاں برقرار رہیں گی۔ یاد رہے کہ دسمبر 2024 میں باغیوں کے حملے کے بعد بشار الاسد اقتدار سے ہٹانے کے بعد اس پالیسی میں تبدیلی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
شامی وزیر خارجہ اسعد الشیبانی نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے بیان میں بتایا ہے کہ یہ اقدام اقتصادی بحالی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے گا اور ملک کو عالمی برادری کے لیے کھول دے گا۔ یہ اعلان ریاض میں ٹرمپ اور شامی صدر احمد الشرع کے درمیان مئی میں ہونے والی ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے جہاں ٹرمپ نے ابتدائی طور پر پابندیاں ہٹانے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا تھا۔
تاہم، کانگریس میں کچھ لوگ تمام اقدامات کی مکمل منسوخی کی وکالت کر رہے ہیں اور یورپ پہلے ہی اپنی پابندیوں کا نظام ختم کر چکا ہے، مگر امریکہ کچھ پابندیاں برقرار رکھے گا۔ وائٹ ہاؤس القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ایک باغی گروپ حیات تحریر الشام کی دہشت گردی کی نامزدگیوں اور شام کی ریاستی سرپرست دہشت گردی کی حیثیت کا جائزہ لے گا۔ انتظامیہ شام کی کلیدی ترجیحات پر پیشرفت کی نگرانی جاری رکھے گی جن میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا، غیر ملکی دہشت گردوں کا حل نکالنا اور فلسطینی دہشت گردوں کو ملک بدر کرنا شامل ہیں۔
یہ فیصلہ خبر رساں ادارے رائٹرز کی اس تحقیقات کے دوران آیا ہے جس میں شامی سرکاری افواج کی جانب سے 1,500 سے زائد علویوں کے قتل میں ملوث ہونے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ابھی تک اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
پابندیوں کے خاتمے سے شام میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد، غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت میں اضافے کی توقع ہے۔ اگرچہ امریکی محکمہ خزانہ نے پہلے عبوری شامی حکومت کے ساتھ لین دین کی اجازت دینے والا ایک عمومی لائسنس جاری کیا تھا لیکن پابندیوں کے پروگرام کو منسوخ کرنا سے طویل مدتی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔