وزارت خارجہ نے جمعرات کو جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے کے حوالے سے ہندوستانی وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے حالیہ بیانات کی مذمت کرتے ہوئے ایک سخت بیان جاری کیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان سفیر شفقت علی خان نے کہا کہ بھارت ایک ‘گمراہ کن اور یک طرفہ’ بیانیہ پیش کر رہا ہے جو کشمیر کے حل طلب تنازعے کو نظرانداز کرتا ہے جو سات دہائیوں پر محیط ہے۔
شفقت علی خان نے کہا کہ بھارت کے مظلومیت کے دعوے درحقیقت پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کے لیے ایک دھوکہ ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ بھارت کی کارروائیوں میں غیر ملکی سرزمین میں ٹارگٹ کلنگ، تخریب کاری اور ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی شامل ہیں۔
وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں تمام تر حل طلب مسائل بشمول جموں و کشمیر کے بنیادی تنازعے کے پرامن حل کے لیے تعمیری مکالمے کے پاکستان کے عزم کی تصدیق کی۔ تاہم اس نے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کی راہ میں بھارت کے ‘سخت رویے اور بالادستی کے عزائم’ کو رکاوٹ قرار دیا۔
وزارت خارجہ نے کشمیر پر ہندوستانی قیادت کی جانب سے بڑھتی ہوئی ‘بے جا دعووں’ کی بھی مذمت کی۔ وزارت خارجہ نے خاص طور پر بھارتی وزیر خارجہ کے رائسینا ڈائیلاگ میں دیے گئے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت خود 1948 میں کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر آیا تھا اور اب وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر تنقید نہیں کر سکتا۔
ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں کہا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کا ‘مرکز’ ہے اور ان کی امن قائم کرنے کی ہر ‘نیک’ کوشش کو دشمنی اور دھوکے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے جس کے حتمی حل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں منعقدہ رائےشماری سے ہونا چاہیے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں درج ہے۔ پاکستان پرامن باہمی اشتراک پر یقین رکھتا ہے لیکن ساتھ میں اس بات پر زور دیتا ہے کہ کشمیر تنازعے کا ایک پرامن حل نکلے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہو اور یہ خطے میں دیرپا امن کے لیے ضروری ہے۔