خیبرپختونخوا کی نئی صوبائی حکومت میں وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ابتدائی کابینہ کی تشکیل سے قبل اور بعد میں سیاسی دباؤ اور جوڑ توڑ کی ایک دلچسپ اور پیچیدہ صورتحال سامنے آئی ہے۔
30 اکتوبر کو وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس کا مرکزی ایجنڈا خیبرپختونخوا کابینہ کی تشکیل تھا۔ کابینہ نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس میں سہیل آفریدی کے قریبی حلقہ احباب شامل تھے۔ اس دوران خیبر سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی نے تجویز دی کہ کابینہ کے انتخاب میں نئے اور پرانے دونوں قسم کے اراکین کو شامل کیا جائے لیکن جنوبی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ عمران خان سے اب تک ان کی بہنوں اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کی ملاقات ہوئی ہے اور دونوں نے واضح کیا ہے کہ عمران خان نئی کابینہ میں نئے چہروں کو شامل کرنے کے خواہاں ہیں۔ طویل مشاورت کے بعد ابتدائی طور پر 8 وزراء، 2 مشیروں اور 1 معاون خصوصی پر مشتمل کابینہ تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا۔
اجلاس میں شامل ایک سابق صوبائی وزیر کے مطابق 12 رکنی کابینہ کی خبر لیک ہوتے ہی پارٹی کے اہم رہنماؤں کے حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسد قیصر اور شہرام ترکئی اچانک اجلاس میں پہنچ گئے اور اسد قیصر نے بغیر کسی وقفے کے یہ مؤقف اپنایا کہ کابینہ کی تشکیل پر مرکزی قیادت سے مشاورت لازمی ہے۔ اجلاس میں شریک ایک اور رکن نے اس کی تصدیق کی اور بتایا کہ دونوں رہنما نئی کابینہ کی تشکیل میں اپنے بھائیوں کے لیے جگہ بنانا چاہتے تھے،کیونکہ ابتدائی فہرست میں دونوں رہنماؤں کے بھائی شامل نہیں تھے۔ اسد قیصر اپنے بھائی عاقب اللہ اور شہرام ترکئی اپنے چھوٹے بھائی فیصل ترکئی کے لیے تگ و دو کر رہے تھے۔
31 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے نو منتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے 10 وزراء، 2 مشیروں اور 1 معاون خصوصی پر مشتمل 13 رکنی ابتدائی کابینہ کا اعلان کیا۔ اس کابینہ میں دباؤ کے پیش نظر شہرام ترکئی کے بھائی فیصل ترکئی اور اسد قیصر کے بھائی عاقب اللہ کو بھی شامل کیا گیا۔
ایک اہم رکن کابینہ نے خبرکدہ کو بتایا کہ کابینہ میں شمولیت کے لیے سہیل آفریدی کو شدید دباؤ کا سامنا تھا خاص طور پر پارٹی کے قریبی حلقوں اور مینا خان آفریدی کی جانب سے۔ دیگر رہنماؤں کی لابنگ بھی زوروں پر تھی عاطف خان اپنے قریبی ساتھی طارق آریانی کے لیے، پارٹی کے صوبائی صدر جنید اکبر شکیل خان کے لیے کوشاں تھے جبکہ سابق وزیراعلیٰ علی آمین گنڈا پور اپنے چار قریبی ساتھیوں سجاد بارکوال، مزمل اسلم، پیر مصور شاہ اور پختونیار کے لیے میدان میں کود پڑے تھے۔ مرکزی قیادت تیمور سلیم جھگڑا اور کامران بنگش کے لیے کوششیں کر رہی تھی اور سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی ہزارہ گروپ کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔
کابینہ کی ممکنہ تعداد اور قلمدانوں کی تقسیم
18 ویں آئینی ترمیم اور قبائلی اضلاع کے انضمام کے تحت خیبرپختونخوا اسمبلی میں وزراء کی زیادہ سے زیادہ تعداد 15، مشیروں کی تعداد 5 اور معاونین خصوصی کی تعداد کئی درجن تک ہوسکتی ہے۔ سابقہ دور میں علی آمین گنڈا پور کی کابینہ 15 وزراء، 5 مشیروں اور 12 معاونین خصوصی کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ 31 اکتوبر کو سہیل آفریدی کی ابتدائی کابینہ میں شامل 13 اراکین میں سے 10 کا تعلق علی آمین گنڈا پور کابینہ سے تھا، 2 اراکین محمود خان دور میں کابینہ کا حصہ رہ چکے تھے، جبکہ صرف شفیع جان پارٹی کا کابینہ میں شامل ہونے والا تازہ چہرہ تھا۔
محکموں کے قلمدانوں کی تقسیم کے دوران بھی شدید تگ و دو دیکھنے میں آئی۔ خیبرپختونخوا میں کئی سالوں سے چار بڑے تعمیراتی محکموں (بلدیات، آبپاشی، سی اینڈ ڈبلیو اور پبلک ہیلتھ) کے لیے سب سے زیادہ لابنگ ہوتی ہے۔ سہیل آفریدی کے دست راست مینا خان آفریدی کو بلدیات کا محکمہ دیا گیا جبکہ انہیں علی آمین گنڈا پور کے ابتدائی دور میں اعلی تعلیم اور بعد میں سی اینڈ ڈبلیو کا محکمہ دیا گیا تھا۔ یوسف ایوب کے چھوٹے بھائی کو ابتدائی و ثانوی تعلیم کا محکمہ دیا گیا، حالانکہ وہ ورکس ڈیپارٹمنٹ کے لیے کوشاں تھے۔ پبلک ہیلتھ کا قلمدان فضل شکور اور ایکسائز کا قلمدان فخر جہاں کو نصیب ہوا۔ خلیق الرحمان کو صحت اور امجد علی کو ہاوسنگ کا محکمہ معمول کے مطابق دیا گیا۔ اسد قیصر کی جانب سے اپنے بھائی عاقب اللہ کو سی اینڈ ڈبلیو کا محکمہ دلانے کے لیے بھرپور لابنگ کی گئی تھی لیکن سہیل آفریدی نے انہیں محکمہ آباد کاری اور فیصل ترکئی کو لیبر ڈیپارٹمنٹ پر ٹرخا دیا۔
خالی قلمدان اور عمران خان سے ملاقات کا انتظار
خیبرپختونخوا کابینہ میں اب بھی پانچ وزراء، تین مشیروں اور درجن بھر معاونین خصوصی کے قلمدان خالی ہیں جس کے لیے لابنگ اب بھی جاری ہے۔ تاحال سی اینڈ ڈبلیو کا کوئی وزیر نہیں اس کے علاوہ محکمہ جنگلات، ماہی پروری و لائیوسٹاک، اعلی تعلیم، خوراک، ترقی و منصوبہ بندی، توانائی، معدنیات، فنی تعلیم و آئی ٹی، بہبود آبادی، زراعت اور سماجی بہبود جیسے کئی اہم قلمدان خالی ہیں۔ ان آسامیوں پر تقرری کے لیے وزیراعلیٰ کو مختلف پارٹی رہنماؤں، قریبی حلقہ احباب اور دیگر ذرائع سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
علی آمین گنڈا پور کابینہ میں شامل ایک سابق وزیر نے خبر کدہ کو بتایا کہ سہیل آفریدی کابینہ کی تشکیل میں جتنی تاخیر کریں گے اتنا ہی انہیں مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم، سہیل آفریدی کی بھی مجبوری ہے کہ وہ عمران خان سے ملاقات کر کے اپنے اس تمام دباؤ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ امید ہے کہ سہیل آفریدی عمران خان کو جو نام پیش کریں گے ان میں بہت کم ناموں پر ہی اعتراض ہو گا، اور وہ آسانی سے اپنے پسندیدہ ناموں کی توثیق کرا سکیں گے۔ تاہم، اس توثیق سے پہلے سہیل آفریدی نے اپنے سیاسی گرو مراد سعید سے ضرور مشاورت کی ہوگی۔