استنبول میں پاک-افغان انٹیلی جنس سربراہان کل اہم ملاقات کرینگے: پاکستان کا مرکزی مطالبہ "افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو”

اطلاعات کے مطابق پاکستان کے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل اور افغانستان کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر 6 نومبر کو ترکی کے شہر استنبول میں ایک اہم ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات کا مقصد ہفتہ وار نازک جنگ بندی کو ایک منظم اور پائیدار معاہدے میں تبدیل کرنا ہے۔

 تعلقات کی اہمیت اور جنگ کا نقصان

ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان مضبوط تجارتی روابط اور لوگوں کی آمد و رفت ہے۔ تاہم، کسی بھی جنگ یا غیر یقینی صورتحال کی صورت میں نقصان دونوں فریقین کو پہنچے گا لیکن خاص طور پر افغانستان متاثر ہو گا۔ اس سے تجارت، سمندری راستوں کا استعمال، اور لوگوں کے علاج و تعلیم کے لیے پاکستان آنے جانے پر بہت زیادہ منفی اثر پڑے گا۔

عبدالولی خان یونیورسٹی کے آئی آر ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالشکور نے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ آخر کار بات چیت سے ہی حل ہوگا کیونکہ جنگ پڑوسیوں کے درمیان بہت تلخ یادیں چھوڑے گی۔

ڈاکٹر عبدالشکور کا کہنا ہے کہ دونوں (ٹی ٹی پی اور افغان طالبان) عقیدے کے لحاظ سے ایک ہیں اور ان کے نظریات تقریباً یکساں ہیں۔ دونوں نے وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کی مدد کی ہے اور افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو کئی جگہوں پر استعمال بھی کیا ہے۔

انہوں نے خبرکدہ کو وضاحت کی کہ افغان طالبان دیگر مسلح گروہوں کو خود سے متنفر نہیں کر سکتے۔ انہیں خوف ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی گئی تو یہ جنگجو داعش خراسان اور دیگر طالبان مخالف گروہوں کی طرف جا سکتے ہیں کیونکہ وہاں پہلے ہی دیگر مسلح گروہ افغان طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر شکور کے مطابق افغان طالبان کی طرف سے ٹی ٹی پی کو دوسرے علاقوں میں بھیجنے کی تجویز بھی مسئلے کا حل نہیں ہے اور پاکستان اپنے مطالبے میں حق بجانب ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف سخت اقدامات کریں۔

 مذاکرات میں پاکستان کے مطالبات

ڈپٹی پرائم منسٹر اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے منگل کے روز سینیٹ میں خطاب کے دوران انکشاف کیا کہ انہیں افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سے چھ فون کالز موصول ہوئیں اور انہیں ہر بار ایک ہی بات کہی گئی: "اپنی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ کرو۔”

اسحاق ڈار نے کہا: "میں نے افغان وزیر سے کہا کہ ہم صرف ایک چیز چاہتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو — اور مزید کہا کہ یہ صورتحال انہیں مشکل میں ڈال رہی ہے۔”

ٹی ٹی پی کو پراکسی کے طور پر استعمال

ماہرین کا خیال ہے کہ افغان طالبان مذہبی اتحاد کی وجہ سے ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور ٹی ٹی پی ان کے بہت زیادہ اثر میں ہے۔

 ماہرین کہتے ہیں کہ اثر کے ساتھ ساتھ وہ نیٹو کے خلاف اور اب پاکستان میں کارروائیوں میں بھی ایک ساتھ لڑ رہے ہیں۔

تجزیہ کار ریاض احمد کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کے سربراہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور اگر افغان طالبان چاہیں تو ایک حکم سے ٹی ٹی پی کو پاکستان میں دہشت گردی کے حملے روکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

ریاض احمد کا مزید کہنا ہے کہ ” باغورجائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ افغان طالبان کا ٹی ٹی پی کو پراکسی کے طور پر استعمال بڑھ گیا ہے۔ اس لیے وہ اب اس وقت ٹی ٹی پی کو مکمل طور پر ختم نہیں کرنا چاہتے۔”

انہوں نے آخر میں کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان نئے مذاکراتی مرحلے میں پاکستان کا اہم مطالبہ ٹی ٹی پی کا افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف استعمال روکنا ہوگا۔ اگر افغانستان اس مطالبے کو پورا کرنے کا وعدہ کرے تو مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، ورنہ یہ تنازعہ بہت عرصے تک جاری رہے گا۔

پاکستان اور افغانستان کے امور پر گہری نظر رکھنے والے نامور صحافی اور تجزیہ کار افتخار فردوس کے مطابق دونوں فریقین ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے ہیں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حملے بھی نہیں رُکے ہیں۔ پاکستان سرحد پار سے ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے "قابلِ تصدیق” اقدامات کا مطالبہ کرے گا جبکہ طالبان اپنی سرزمین پر کسی بھی طرح کی اندرونی نگرانی کے خلاف ہیں اور وہ "عدم مداخلت” کی زبان کو ترجیح دیں گے۔

 افتخار فردوس نے امید ظاہر کی ہے کہ صرف سرحد پر واقعات کی نگرانی کے لیے ایک مشترکہ میکانزم یا ٹیم بنائی جائے گی، نہ کہ افغانستان کے اندر انسداد دہشت گردی کی جامع جانچ کی جائے گی۔ ان کے  مطابق بات چیت کا دوسرا اہم نکتہ سرحدی گزرگاہوں کو دوبارہ کھولنا اور فائرنگ جیسے واقعات کو روکنے کے لیے ہاٹ لائن قائم کرنا ہو گا جس میں ٹھوس پیش رفت کا زیادہ امکان ہے۔ افتخار فردوس نے اپنے تجزیہ میں بتایا کہ مجموعی طور پر یہ ملاقات جنگ بندی کو طول دینے اور مستقبل میں تصادم کا خطرہ کم کرنے میں مدد دے گی لیکن پاکستان اور ٹی ٹی پی کے بنیادی مسئلے کا کوئی فیصلہ کن حل نہیں نکل پائے گا۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں