تحریر: ریاض حسین
بھارت کی نئی آبی پیشکش اور پاکستان کے خدشات
بھارت کی جانب سے افغانستان میں پانی کے انتظام اور ڈیموں کی تعمیر میں مدد کی نئی پیشکش نے پاکستان میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی اس شمولیت سے خطے میں پانی کے تنازعات بڑھ سکتے ہیں اور اسلام آباد اور کابل کے تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
بھارتی وزارتِ آبی وسائل نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان کو "پائیدار پانی کے انتظام” اور ہائیڈرو پاور منصوبوں میں مدد دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ اعلان افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دورۂ نئی دہلی کے بعد سامنے آیا، جہاں دونوں ملکوں نے بنیادی ڈھانچے اور وسائل کی ترقی میں تعاون پر اتفاق کیا۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ بھارت افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے، تاہم اس بیان نے پاکستان میں بے چینی پیدا کر دی ہے کیونکہ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی اور باہمی الزامات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
نرم مگر نازک پس منظر
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی دریا بہتے ہیں، جن میں کنڑ اور کابل دریا شامل ہیں۔ یہ دریا خیبر پختونخوا کی زراعت کے لیے نہایت اہم ہیں اور آخرکار دریائے سندھ کے نظام میں شامل ہو جاتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان ان دریاؤں پر کوئی باقاعدہ معاہدہ موجود نہیں، جیسا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہے، اس لیے پانی کا معاملہ بہت حساس ہے۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان افغانستان پر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو پناہ دینے کا الزام لگا رہا ہے، جبکہ افغان طالبان حکومت پاکستان پر فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر رہی ہے۔ ایسے ماحول میں پانی ایک نیا ممکنہ تنازع بن کر اُبھر رہا ہے۔
"بھارت پانی کو سیاسی ہتھیار بنا رہا ہے”
خیبر پختونخوا محکمہ آبپاشی کے سابق سپرنٹنڈنگ انجینئر، انجینئر عبد الولی یوسف زئی نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کے آبی منصوبوں میں بھارت کا بڑھتا کردار پاکستان کے پانی کے تحفظ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، "یہ منصوبہ نیا نہیں ہے، بھارت نے کرزئی دور سے ہی افغانستان کے لالپور علاقے میں ذخائر بنانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ بھارت پانی کو سیاسی دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے، جیسے وہ پاکستان کے ساتھ کر چکا ہے۔”
ان کے مطابق افغانستان کے پاس اس وقت صرف دو چھوٹے ذخائر ہیں جو زراعت کے لیے استعمال ہوتے ہیں، لیکن وہ بڑے ڈیم بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
انہوں نے مزید کہا، "اگر بھارت ان منصوبوں میں مدد دے گا تو افغانستان پانی روک کر پاکستان کے لیے مسئلہ پیدا کر سکتا ہے۔ خیبر پختونخوا کی زراعت بری طرح متاثر ہوگی- جو ورسک ڈیم اور چترال سے گزرنے والے پانی پر منحصر ہے، ۔”
"یہ پانی نہیں، سیاسی مسئلہ ہے”
ایکسپریس ٹریبیون کے مصنف شہاب اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو دونوں ممالک نے غیر ضروری طور پر سیاسی رنگ دے دیا ہے۔
انہوں نے کہا، "افغانستان سے پاکستان میں نو سے دس چھوٹے دریا بہتے ہیں، مگر صرف کنڑ دریا کو سیاسی بنا دیا گیا ہے۔”
ان کے مطابق، "یہ زیادہ سیاسی مسئلہ ہے، پانی کا نہیں۔ پاکستان افغانستان پر فضائی حملے، مہاجر پالیسی اور تجارت کے ذریعے دباؤ ڈالتا ہے، جبکہ افغانستان پانی کے منصوبوں کو بطور جواب استعمال کرتا ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ افغانستان کی جانب سے بنائے جانے والے چھوٹے ذخائر تکنیکی ناکامی کا شکار ہو چکے ہیں۔ جیسے خوست میں بنایا گیا ایک منصوبہ بھی تکنیکی ناکامی کا شکار ھو چکا ھے ۔ افغانستان کے لیے ان دریاؤں کو روکنا ممکن نہیں۔ لیکن اگر دونوں ملکوں کے درمیان کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں ہوا تو معمولی غلط فہمیاں بھی بڑے تنازعات میں بدل سکتی ہیں۔”
"کنڑ ڈیم ایک نیا تنازع بن سکتا ہے”
پشاور کے صحافی تیمور خان کے مطابق، افغانستان کی جانب سے کنڑ دریا پر ڈیم بنانے کا دعویٰ پاکستان کی آبپاشی پر براہِ راست اثر ڈال سکتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی، "کنڑ دریا اصل میں پاکستان کے چترال سے نکلتا ہے اور ارندو کے مقام سے افغانستان میں داخل ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تقریباً 32 ہزار ہیکٹر زمین ورسک ڈیم کے پانی سے سیراب ہوتی ہے، جو اسی دریا پر منحصر ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان پانی کا بہاؤ روکتا ہے تو یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔
"افغانستان کو ڈیم بناتے وقت پاکستان کے لیے مناسب نیچے کی طرف پانی کا بہاؤ یقینی بنانا ہوگا۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس تکنیکی متبادل موجود ہیں، جیسے چترال کے پانی کو دریا پنجکوڑہ کی طرف موڑنا، لیکن اصل حل صرف سفارتکاری میں ہے۔
"یہ مسئلہ بات چیت اور علاقائی تعاون سے حل ہونا چاہیے، نہ کہ تصادم یا بھارت کی سیاسی چالوں کا شکار ہو کر حل ہو جائے۔”
پانی پر بڑھتی سفارتی کشمکش
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کا افغانستان میں بڑھتا کردار اس کی وسیع حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کے ذریعے وہ خطے میں اثر و رسوخ بڑھانا اور پاکستان کے کردار کو محدود کرنا چاہتا ہے۔
افغانستان کے لیے بھارت کی شراکت تکنیکی مدد اور توانائی و زراعت کے نظام کو بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے، لیکن ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر کوئی باقاعدہ پانی کا معاہدہ نہ ہوا تو یہ معاملہ خطے میں نئے تنازع کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
"جنوبی ایشیا میں پانی تیزی سے نیا جغرافیائی تنازع بن رہا ہے،” ایک ماہر نے کہا۔ "اگر اسے دانشمندی سے نہ سنبھالا گیا تو یہ نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ بھارت کے لیے بھی خطے میں نئی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔”