امریکی خبر رساں ادارے دی واشنگٹن پوسٹ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے چھوڑے گئے اربوں ڈالر مالیت کے فوجی ساز و سامان پاکستانی عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔ اس اسلحے کی موجودگی سے ان دہشت گرد گروہوں کی صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور خطے میں جاری شورش کو دوام مل رہا ہے۔
اس تحقیق میں کو کم از کم 63 امریکی ساختہ ہتھیاروں تک رسائی دی گئی جن میں ایم 16 اور ایم 4 رائفلیں شامل ہیں جو پاکستان میں عسکریت پسندوں سے برآمد کی گئیں ہے۔ امریکی فوج اور پینٹاگون نے ان ہتھیاروں کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ اصل میں 20 سالہ جنگ کے دوران افغان فورسز کو فراہم کیے گئے تھے۔
ان انکشافات میں وہ ہتھیار بھی شامل ہیں جو بڑے طرز کے حملوں میں استعمال ہوئے جس میں قابل ذکر 11 مارچ کو ہونے والی جعفر ایکسپرس کی ہائی جیکنگ ہے جس میں کم از کم 26 افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستانی حکام نے امریکی نائٹ وژن چشمے بھی دکھائے اگرچہ واشنگٹن پوسٹ ان کی اصل ہونے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکی۔
جدید ہتھیاروں کی آمد، بشمول نائٹ وژن ڈیوائسز اور تھرمل آپٹکس نے پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسندوں جیسے عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے پیدا ہونے والے خطرے کو ڈرامائی طور پر بڑھا دیا ہے۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز جو ہتھیاروں اور تکنیکی لحاظ سے کمزور ہیں جو پرتشدد کارروائیوں کی اس لہر کو روکنے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک خصوصی فورسز کے کانسٹیبل جو ایک عسکریت پسند حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے، نے رپورٹ میں عسکریت پسندوں کی تکنیکی برتری کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ‘وہ ہمیں دیکھ سکتے تھے، لیکن ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے تھے۔’ افغان فورسز کو فراہم کردہ دفاعی ساز و سامان کے بارے میں امریکی فوج کے ریکارڈ رکھنے کے نظام پر تنقید کی گئی ہے کہ یہ غیر مستقل ہے، اورعجلت میں انخلاء کے بعد مسئلہ مزید بڑھ گیا ہے۔ اگرچہ پینٹاگون کا دعویٰ ہے کہ ایک بار منتقل ہونے کے بعد ہتھیار افغان حکومت کی ذمہ داری تھے لیکن پیچھے چھوڑے گئے ساز و سامان کی بڑی مقدار—بشمول ڈھائی لاکھ سے زیادہ رائفلیں اور ہزاروں نائٹ وژن چشموں کی موجودگی نے باغی گروہوں کے لیے ایک بڑا موقع پیدا کر دیا ہے۔ یہ ہتھیار افغانستان-پاکستان کے غیر محفوظ سرحدی علاقوں میں غیر قانونی ہتھیاروں کی مارکیٹوں میں آسانی سے دستیاب ہیں جہاں طالبان کے قبضے کے بعد سے قیمتیں گر گئی ہیں۔
پاکستانی حکومت نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں جدید امریکی ہتھیاروں کی موجودگی سے پیدا ہونے والے سکیورٹی خطرات کو اجاگر کیا ہے۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے پہلے اس ساز و سامان کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا لیکن طالبان حکومت نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے ہتھیاروں کی اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔ تجزیہ کار پاکستان میں دہشت گردی کے ایک بار پھر بڑھنے کے دور میں واپسی کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں، جو 2009 اور 2014 کے درمیان ہونے والے شدید تشدد کے طرز پر ہوسکتی ہے۔