امریکہ کی نئی انتظامیہ ممکنہ طور پر نئی سفری پابندیاں لاگو کر سکتی ہے جو اگلے ہفتے سے نافذ ہونے کا امکان ہے۔ ان پابندیوں سے پاکستانی شہری بھی متاثر ہو سکتے ہیں ۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں یہ سفری پابندیاں پاکستانی شہریوں کے ساتھ ساتھ افغان شہریوں پر عائد ہو سکتی ہیں۔
اگرچہ امریکی حکومت کی جانب سے اس پابندی کی تصدیق نہیں ہوئی ہے ،لیکن اس خبر کی وجہ سے تشویش اور غیر یقینی کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔
یہ حالیہ تجویز کردہ سفری پابندیاں صدر ٹرمپ کے پہلے دور کے سفری پابندیوں سے مشابہ ہیں جس میں مسلم اکثریتی ممالک کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ بقول ان کے یہ نئی مجوزہ سفری پابندیاں قومی سلامتی کے خطرات اور جانچ پڑتال کے اعمال پر مبنی ہے۔ اس سے ہر سال ہزاروں پاکستانی متاثر ہونگے جو تعلیم، کام اور خاندانی معاملات کے سلسلے میں امریکہ جاتے ہیں۔
اس عمل سے پاکستان کو معاشی اثرات کا سامناہو سکتاہے۔ خاص طور پر امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں کمی سے پاکستان کی ترسیلات زر کافی متاثر ہو سکتی ہیں۔
افغانستان پر اس قسم کی پابندی افغان پناہ گزینوں کے لیے مزید مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ پہلے ہی ہزاروں افغان شہری امریکہ میں آبادکاری کا انتظار کر رہے ہیں۔
ہزاروں افغان شہریوں کو پناہ گزینوں کے طور پر یا خصوصی ایمیگرنٹ ویزا پر دوبارہ آبادکاری کے لیے منظوری مل چکی ہے۔ اس میں اکثریت ان افغانوں کی ہے جنہوں نے 20 سالہ جنگ کے دوران امریکی فوجوں کی مدد کی تھی۔ یہ اب مختلف ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس میں پاکستان میں موجود تقریباً 20,000 افغان باشندے بھی شامل ہیں۔ یہ مجوزہ پابندیاں ان کی دوبارہ آبادکاری کے عمل کو روک سکتی ہے۔
اگرچہ امریکی محکمہ خارجہ نے ابھی تک سرکاری طور پر اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ لیکن یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے وہ افغان شہری بھی متاثر ہونگے جو ایک دفعہ پہلے اس جانچ پڑتال کے سخت مرحلے سے گزر چکے ہیں۔
2018 میں ٹرمپ کی حکومت نے سات اسلامی ممالک کے مسافروں پر پابندی عائد کی تھی۔ اگرچہ اس پر شدید تنقید ہوئی تھی لیکن امریکی سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو برقرار رکھا تھا۔ تاہم جو بائیڈن کی انتظامیہ نے 2021 میں اس پابندی کو ختم کر دیا تھا۔