پاکستان کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان صادق خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے معاملے کے حل کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔
پیر کے روز اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے خان نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پہلے دن سے ہی ‘پریشان کن’ رہے ہیں۔
صادق خان نے کہا کہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے یہ تعلقات ایک نرم طاقت کی بنیاد پر پرامن اور تعاون پر مبنی نہ ہو سکیں’
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمیشہ با اثر لوگوں کی توجہ حاصل کرنا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کابل میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے اپنے پانچ سالہ دور میں انہیں حکومت کی طرف سے کوئی ہدایات نہیں ملیں۔
خصوصی نمائندے نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے معاملات کے حوالے سے بہت ‘دھواں اور شور’ رہتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر بحث ہو رہی ہے کہ پاکستان نے 568 افغان مہاجرین کو واپس بھیجا ہے جبکہ ایران میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جس نے دس لاکھ سے زائد مہاجرین کو واپس بھیجا ہے۔
تاہم انہوں نے پاکستان میں افغانستان کے خلاف نفرت انگیز مہم کے بارے میں ایک تاثر کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تین سال قبل پاکستان میں نفرت والی ایسی کوئی چیز نہیں تھی حالانکہ افغانستان میں نفرت انگیز بیانیہ موجود تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو افغانستان جیسا بنا دیا ہے
انہوں نے ٹی ٹی پی کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ‘فلیش پوائنٹ’ قرار دیا۔ انہوں نے کالعدم دہشت گرد تنظیم کو ایک چیلنج قرار دیا جسے پاکستان ‘برداشت نہیں کر سکتا’۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر تعلقات کو بہتر بنانا ہے تو افغانستان کو ٹی ٹی پی کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا ٹی ٹی پی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے روز مرہ کی بنیاد پر ہمارے نوجوان شہید ہو رہے ہیں۔ اس کا حل ضروری نہیں کہ لوگوں کو مارنا یا گرفتار کرنا ہو اور ان کو پاکستان کے حوالے کرنا ہو۔ اس کا حل ان عناصر کو روکنا ہے اور قابو میں رکھنا ہے جس پر میرے خیال میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو اس پر ہمارے ساتھ کام کرنا ہوگا اگر وہ ہمارے ساتھ کام نہیں کر سکتے تو تمام معاہدے ختم ہو جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر سرحد پار دہشت گردی کے واقعات ختم ہو جائیں تو پاکستان افغانستان کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
صادق خان نے کہا کہ 500 افراد کی ایک فہرست موجود ہے جو دہشت گردانہ حملے کرنے کے لیے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پر حملہ کرنے والے تقریباً نصف لوگ افغان شہری ہیں جن کا تعلق افغانستان کے نامور خاندانوں سے ہے اور وہ اکثر طالبان کے بڑے کمانڈر ہیں۔
صادق خان نے کہا کہ اس معاملے کا حل ایک مضبوط پالیسی بنانا ہے جہاں ہمیں افغانستان میں بیٹھے ان لوگوں کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے جو اس ملک کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
خصوصی نمائندے نے کہا کہ افغانستان میں 44,000 گاؤں ہیں جن کو طالبان کنٹرول کرتے ہیں جو تاریخ میں پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ دیہاتوں پر کنٹرول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طالبان ملک کے ہر فرد کو کنٹرول کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان سپریم لیڈر کی طرف سے عام لوگوں کے ہتھیار اٹھانے پر پابندی کے باوجود ٹی ٹی پی افغانستان کے اندر کھلے عام ہتھیار اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانوں کے پاکستان میں داخل ہونے کے حوالے سے سپریم لیڈر کے احکامات کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
طالبان قیادت میں ‘آگاہی’ کا مطالبہ کرتے ہوئے خان نے کہا، "کیا وہ 9/11 جیسے واقعے کا انتظار کر رہے ہیں؟ جب افغان عوام دو دہائیوں کی قیمت ادا کریں گے۔”
انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی سے لڑنا پاکستان کے لیے ترقی کا مسئلہ ہے نہ کہ بقا کا۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کا ہارنا یقینی ہے لیکن پاکستان کو قلیل مدتی جنگ لڑتے ہوئے اپنے نقصانات کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
نمائندے خصوصی کا کہنا تھا کہ ہمیں افغانستان کے ساتھ معاملات کے بارے میں بہت واضح ہونا چاہیے، اگر ہم 100 بار بھی ناکام ہو جائیں تو ہمیں 101 بار کوشش کرنی چاہیے۔