اور یوں، مہاجرین واپس جانے لگے

چار دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزرنے کو آرہا ہے جب روس کی افغانستان پر یلغار کے بعد افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان کا رخ کیا۔ پاکستان نے بھی بانہیں پھیلا کر اپنے دینی بھائیوں کو خوش آمدید کہا اور لاکھوں کی تعداد میں آنے والے ان مہاجرین کے لئے اپنے گھروں اور کاروباروں کے دروازے کھول دیئے۔ جو صاحب حیثیت تھے وہ تو مختلف شہروں میں بسیرا کرگئے جبکہ کمزور حیثیت والوں کے لئے مختلف مقامات پر کیمپس قائم کردیئے گئے۔ ان بن بلائے مہمانوں کی آمد نے ہمارے معاشرے پر بھی کچھ اچھے اور بہت سے برے اثرات مرتب کئے۔

کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن بھی اسی آمد کا نتیجہ ہے۔ کئی دہائیوں پر محیط جنگ کے خاتمے کے بعد ان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ کیا گیا اور پاکستان میں رہنے والے افغانوں کی واپسی کا سلسلہ ستمبر 2023 میں شروع ہوااور15دسمبر 2024 تک 7 لاکھ 95 ہزار 607 مہاجرین اپنے ملک واپس جا چکےتھے۔

مئی اور جون 2024 میں پاکستان چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا اس دوران تقریباً 38 ہزار اور مجموعی طور پر 76 ہزار لوگ افغانستان کو واپس گئے۔

اس کے بعد یہ تعداد کم ہو گئی جب جولائی 2024 میں 36 ہزار، اگست میں 29 ہزار، ستمبر میں 23 ہزار اور اکتوبر میں 24 ہزار افغان واپس گئے جبکہ نومبر 2024 میں ان کی تعداد قدرے بڑھ کر 25,400 تک پہنچ گئی تھی۔

ستمبر 2023 میں پاکستان کی حکومت نے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم لوگوں (جن میں غالب اکثریت افغان مہاجرین کی ہے) کو یکم نومبر سے پہلے رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی اس مدت میں بعدازاں 31 دسمبر 2023 اور پھر 30 جون 2024 تک توسیع کر دی گئی۔ اس دوران ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کی گرفتاریوں اور ملک بدری کا سلسلہ بھی جاری رہا جولائی 2024 میں حکومت نے باقی ماندہ مہاجرین کو اپنی رجسٹریشن کا ثبوت (پی او آر کارڈ) دکھانے کی صورت میں جون 2025 تک ملک میں رہنے کی اجازت دی، سرکاری ریکارڈ کے مطابق ملک میں ایسے افغانوں کی تعداد تقریباً 14 لاکھ 50 ہزار ہے۔

تقریباً نو لاکھ افغان شہری تاحال کسی قانونی دستاویز کے بغیر پاکستان میں موجود ہیں،حکومت پاکستان نے بعدازاں 31 مارچ 2025ء تک افغان مہاجرین کی بے دخلی کا فیصلہ کیا اور وفاقی حکومت کی ڈیڈلائن کے بعد یکم اپریل 2025ء سے افغان مہاجرین کی بے دخلی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت مجموعی طور پر 21 لاکھ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں، 14 لاکھ افغان مہاجرین قانونی طور پر رجسٹرڈ ہیں اور 8 لاکھ افغان شہری ایسے ہیں جو ’افغان سٹیزن کارڈ‘ رکھتے ہیں۔ کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین کے قیام کو اب غیر قانونی تصور کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں اس وقت غیر قانونی رہائش پذیر غیر ملکیوں کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے متعدد  اور خاندان لنڈی کوتل ٹرانزٹ کیمپ سے طورخم بارڈر کے راستے افغانستان ڈی پورٹ کر دیئے ہیں۔

 حالیہ مہم کے دوران 152 افراد پر مشتمل 10 غیر ملکی خاندان طورخم کے راستے ڈی پورٹ کردیئے گئے، وطن واپس واپس بھیجے جانے والوں میں  32 مرد، 37 خواتین ،39 بچے اور 44 بچیاں شامل تھے، ڈپٹی کمشنر ضلع خیبر بلال شاہد کے مطابق لنڈیکوتل ٹرانزٹ کیمپ میں غیر ملکیوں کا اندراج کیا گیا،جن اضلاع سے غیر ملکیوں کو لنڈیکوتل لایا جاتا ہے وہاں کی نادرا ٹیم بھی ساتھ تعینات ہوتی ہے۔

لیکن افغان مہاجرین کو نکالنے میں وفاقی حکوت اور صوبائی  حکومت ایک پیچ پر نہیں ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے خیبرپختونخوا سے کسی افغان مہاجر کو زبردستی نہ نکالنے کا اعلان کیا ہے۔

وزیر اعلی کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین سے متعلق ہماری روایات بھی ہیں، عزت سے جو افغان مہاجرین جانا چاہتے ہیں انہیں وسائل دیں گے، خیبرپختونخوا سے کسی افغان مہاجر کو زبردستی نہیں نکالیں گے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں