تاجر کے قتل پر تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کے مابین اختلافات

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی قیادت کے مابین تنازعہ اس وقت سامنے آیا جب ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ایک اغوا شدہ تاجر کو جماعت الاحرار گروپ نے قتل کر دیا ۔

اطلاعات کے مطابق قبائلی ضلع خیبر کے ایک معروف تاجر شیر محمد آفریدی کو کئی دن پہلے ٹی ٹی پی کے جماعت الاحرار گروپ کے ممبرز نے اغوا کر لیا تھا۔ اس تاجر کو ٹی ٹی پی کمانڈر قاری اسماعیل کی موت میں ملوث ہونے کے شبہ میں اغوا کر کے بعدازاں قتل کر دیا گیا۔ کمانڈر قاری اسماعیل ضلع خیبر میں تنظیم کی طرف گورنر تھے جوکہ سیکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا۔

قاری اسماعیل ٹی ٹی پی کے ضلعی جماعت الاحرار گروپ کا ایک سینئر کمانڈر تھا۔

 ٹی ٹی پی کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق  مرکزی قیادت نے مقامی جنگجوؤں کی طرف سے پیش کیے گئے شواہد کو اپنے مقرر کردہ 18 سینئر مذہبی اسکالرز کے سامنے رکھا جس نے شیر محمد کو قاری اسماعیل کے قتل کے الزام سے بری کر دیا۔

 تحریک طالبان پاکستان کی مرکزی قیادت کے اس فیصلے کے باوجود جماعت الاحرار گروپ کے ممبرز نے  اس فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے منگل کے روز  آفریدی کو قتل کر دیا۔

آفریدی کے قتل پر ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت کی طرف سے  شدید رد عمل آیا اور ایک بیان میں اس کی مذمت کی اور جماعت الاحرار جنگجوؤں کو اس فعل کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کا عہد کیا۔ بیان میں بتایا گیا کہ تاجر کی بے گناہی ثابت ہو چکی تھی۔

اس واقعے کے بعد گروپ کے اندر شدید اختلافات  کھل کر سامنے آگئے ۔

پاکستانی طالبان کے ایک اور گروپ، لشکر اسلام نے  ایک بیان میں تاجر شیر محمد آفریدی کے قتل سے خود کو الگ کر لیا ہے۔

گروپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہماری لڑائی صرف سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ہے، عام عوام کے ساتھ نہیں۔

ٹی ٹی پی کی قیادت کی طرف سے تاجر کے قتل پر جاری کردہ مذمتی بیان کو جماعت الاحرار گروپ نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ صحافیوں کے ساتھ شیئر کی گئی ایک آڈیو کلپ میں جماعت الاحرار کے سینئر رہنما سر بکف مہمند نے ٹی ٹی پی کی قیادت کو زمینی حقائق سے دورہونے، جہاد کے اصل مقصد پر سمجھوتہ کرنے اور شریعت سے ہٹ کر ذاتی فیصلے پر انحصار کرنے کا الزام لگایا ہے۔

سر بکف اس بات پر قائم ہے کہ مذکورہ تاجر ایک جاسوس تھا اور انہیں اس بات کا حق حاصل تھا کہ اس کو سزا دی جاتی۔ انہوں نے تحریک کی قیادت پر زمینی صورتحال کو سمجھنے سے عاری اور جہاد کے اصل مقصد سے انحراف کا الزام بھی لگایا ہے۔ جماعت الاحرار کے رہنما نے نہ صرف ٹی ٹی پی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ جماعت میں شامل علماء اور کارکنان سے قیادت کے خلاف بغاوت کی بھی اپیل کی۔

ماضی میں بھی جماعت الاحرار نے ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود پر عمر خالد خراسانی کے قتل کا الزام لگایا تھا۔ جماعت الاحرار کے رکن اسد منصور کے جاری کردہ بیان میں نور ولی محسود پر کئی الزامات لگائے گئے تھے جن میں جماعت الاحرار کے موجودہ رہنما عمر مکرّم خراسانی اور سر بکف مہمند کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا بھی الزام تھا جس کا مقصد  عمر خالد خراسانی کی موت کی تحقیقات کو دبانہ تھا۔ عمر خالد خراسانی اگست 2022 میں افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے علاقے برمل  میں مارا گیا تھا۔ اسد منصور نے  نور ولی محسود پر تحریک طالبان پاکستان کے سابقہ رہنما حکیم اللہ محسود کے خلاف بھی اسی طرح کی سازش کا الزام لگایا تھا۔

 اس تنظیم کے اندر موجود تنازعات اور طاقت کی حصول کی کشمکش اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ان کا مقصد نظریاتی نہیں بلکہ ذاتی مقاصد ہیں جن میں بڑھتی ہوئی بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کے واقعات شامل ہیں۔ مذکورہ واقعات تنظیم کے اندر موجود اختلافات کو کسی بڑی اندرونی لڑائی کی طرف پیش قدمی کا عندیہ دے رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں