سمال آرمز سروے (ایس اے ایس) کی ایک نئی رپورٹ میں طالبان کے قبضے کے تین سال بعد افغانستان میں ہتھیاروں کی دستیابی کی ایک پیچیدہ تصویر کشی کی ہے۔ اگرچہ طالبان نے ہتھیاروں کے ذخائر پر کنٹرول مستحکم کرنے اور عام شہریوں کی رسائی کو محدود کرنے میں پیش رفت کی ہے لیکن غیر قانونی اسلحے کی تجارت ابھی بھی جاری ہے جو علاقائی عدم استحکام کے خدشات کو ہوا دے رہی ہے۔
افغانستان اور پاکستان میں دو سال کی تحقیقات پر مبنی رپورٹ مختلف ہتھیاروں کی دستیابی اور قیمتوں کو دستاویزی شکل دی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ طالبان نے لائسنسنگ کے طریقہ کار نافذ کیے ہیں لیکن غیر رسمی بازار فعال ہیں۔ اس میں نچلی سطح کے طالبان حکام کی خاموش رضا مندی شامل ہیں۔اس بات سے یہ واضح ہے کہ ہتھیاروں کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کی کوششیں ملک بھر میں غیر مستقل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے غیر رسمی بازاروں میں ہتھیاروں کی مجموعی دستیابی نسبتاً مستحکم رہی ہے۔ تاہم، کچھ ہتھیار خاص طور پر امریکی ساختہ ایم۔4 اور ایم۔16 رائفلوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو ممکنہ سپلائی کی رکاوٹوں یا بڑھتی ہوئی مانگ کی نشاندہی کرتا ہے۔ نیٹو پیٹرن کے ہتھیار جیسے ایم۔4 اور ایم۔16 سوویت پیٹرن کے ہتھیاروں کے مقابلے میں زیادہ مہنگے ہیں جو ان کی قلت اور بہتر سمجھی جانے والی خصوصیات کی عکاسی کرتے ہیں۔
دریں اثنا، افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد پار اسلحہ کی ایک کم نچلے درجے کی سمگلنگ جاری ہے جبکہ کچھ سرحدی علاقوں میں نئے نیٹو اور پرانے سوویت اقسام کے ہتھیار آسانی سے دستیاب ہیں۔ رپورٹ میں نامزد دہشت گرد گروہوں بشمول تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کو ہتھیاروں کی فراہمی کے بارے میں مسلسل خدشات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں اسلحہ کنٹرول کی کوششوں پر طالبان کے اندرونی اقتدار کی کشمکش کے اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مختلف دھڑوں کے درمیان برتری کا مقابلہ ضوابط کی ڈور کو متاثر کرتا ہے اور غیر قانونی اسلحے کی سمگلنگ کے سلسلہ میں معاون ہے۔ اس رپورٹ میں افغانستان میں منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ کے درمیان تاریخی تعلق کا بھی ذکر کیا گیا۔ اگرچہ طالبان نے باضابطہ طور پر پوست کی کاشت پر پابندی عائد کر دی ہے لیکن کچھ دھڑے منشیات کی تجارت میں ملوث ہیں اور ممکنہ طور پر بین الاقوامی منڈیوں میں اسلحہ کی خریداری کے لیے اس آمدنی کا استعمال کر رہے ہیں۔
محققین نے مجموعی دستیابی اور بہاؤ کو سمجھنے کے لیے غیر رسمی بازاروں میں ہتھیاروں کی قیمتوں کا سراغ لگایا۔ تاہم رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ بعض دہشت گرد گروہوں کو جان بوجھ کر ہتھیاروں کی فراہمی کی جارہی ہے۔
پاکستان میں نیٹو اور سوویت کی تیار کردہ ہتھیاروں کی فروخت جاری ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فروخت کنندگان حکومت کی جانب سے گرفتاریوں کے خوف سے ان ہتھیاروں کی کھلے عام نمائش سے گریزاں ہیں۔
رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں اسلحے کا پھیلاؤ مقامی تنازعات، طاقت کے حصول اور نسلی کشیدگیوں سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ محققین نے خبردار کیا ہے کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے سرحد پار حملوں کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی موجودہ توازن کو غیر مستحکم کر سکتی ہے اور غیر قانونی اسلحے کے بہاؤ میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔