خیبرپختونخوا کا دیرینہ ‘سیف سٹی منصوبہ’ بالآخر عملی شکل میں، وزیر اعلیٰ کا ضم اضلاع تک توسیع کا حکم

تحریر: تیمور خان

خیبرپختونخوا کا طویل تاخیر کا شکار ‘سیف سٹی منصوبہ’ بالآخر عملی شکل اختیار کرگیا ہے۔ صوبائی حکومت نے دہشت گردی اور بڑھتے جرائم پر قابو پانے کے لیے اس اہم منصوبے کو ناصرف تیزی سے مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ وزیر اعلیٰ نے اب اسے ضم اضلاع تک توسیع دینے کے بھی احکامات جاری کر دیے ہیں۔ منصوبے کے مختلف مراحل میں صوبے کے متعدد اضلاع کو شامل کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اس کے لیے ایک الگ سیف سٹی پراجیکٹ اتھارٹی کے قیام کی تجویز بھی زیر غور ہے۔

طویل انتظار کے بعد آغاز

یہ منصوبہ جو پہلی بار 2008 میں تجویز کیا گیا تھا، 18 سال کی طویل تاخیر کے بعد اب حقیقت بن رہا ہے۔ 6 ارب 97 کروڑ 40 لاکھ روپے کی لاگت سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ صوبائی دارالحکومت کے داخلی و خارجی راستوں سمیت اہم مقامات پر مصنوعی ذہانت (AI) سے لیس کیمروں کے ذریعے نگرانی کا جدید اور جامع نظام فراہم کرے گا۔ منصوبے کی تکمیل کی نئی تاریخ 30 جون 2027 مقرر کی گئی ہے۔

ماضی میں کروڑوں کا ضیاع

2008 میں اس منصوبے کے لیے ایک پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (PMU) بھی قائم کیا گیا تھا، مگر ذرائع کے مطابق اس یونٹ پر کروڑوں روپے تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں خرچ کیے گئے اور کوئی عملی پیشرفت نہ ہو سکی۔ دہشت گردی کی شدید لہر اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے باوجود یہ منصوبہ فنڈز اور انتظامی تاخیر کے باعث کئی برسوں تک فائلوں میں دب کر رہ گیا۔

موجودہ پیشرفت اور ٹیکنالوجی

رواں سال بالآخر خیبرپختونخوا حکومت اور نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (NRTC) کے درمیان باضابطہ معاہدے کے بعد اس منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

پہلا مرحلہ: پہلے مرحلے میں 710 ہائی ریزولوشن کیمرے پشاور کے 125 اہم مقامات پر نصب کیے جا رہے ہیں، جو 30 دن تک کی ویڈیو فوٹیج محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس مرحلے پر 2.2 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔

وسیع پیمانے پر کوریج: اگلے مراحل میں کیمروں کی تعداد کو بڑھا کر 8,500 تک کیا جائے گا۔

مصنوعی ذہانت کا استعمال: یہ جدید کیمرے پولیس ڈیٹا بیس سے منسلک ہوں گے اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے گاڑیوں اور مجرموں کی خودکار شناخت کر سکیں گے۔ ان کیمروں میں AI کی مدد سے آنکھوں کے ذریعے کسی بھی شخص کی پہچان ہو سکے گی، اور بار بار ایک جگہ سے گزرنے والے یا مطلوبہ شخص کی تلاش بھی ممکن ہوگی۔

مقاصد اور خصوصیات

پولیس حکام کے مطابق منصوبہ پشاور کے تمام داخلی و خارجی راستوں کو کور کرے گا تاکہ شہر میں داخل ہونے والی ہر گاڑی اور شخص کی مؤثر نگرانی ممکن ہو۔

ٹریفک کنٹرول: یہ نظام 15 اقسام کی ٹریفک خلاف ورزیوں پر خودکار کارروائی کرے گا۔

انضمام: اسے بی آر ٹی نیٹ ورک سمیت دیگر کمرشل عمارتوں کے سی سی ٹی وی سسٹمز، سرکاری و نیم سرکاری محکموں کے کیمروں، اور عام لوگوں کی جانب سے نصب کردہ کیمروں سے بھی منسلک کیا جائے گا۔

فوری ایکشن: پراجیکٹ ڈائریکٹر رائے اعجاز احمد کے مطابق کیمرے جرائم پیشہ افراد اور ڈیٹا بیس میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی نشاندہی کریں گے اور کسی گاڑی کی نشاندہی ہوتے ہی پولیس ایمرجنسی پیٹرول فوری طور پر متحرک ہوگی۔ یہ محکمہ ایکسائز کے ڈیٹا بیس سے بھی منسلک ہوگا۔

آواز کی ریکارڈنگ اور پرائیویسی کے خدشات: ذرائع کے مطابق نصب کیے جانے والے کیمرے آواز بھی ریکارڈ کریں گےجس سے ایک جانب جرائم کی روک تھام میں مدد ملے گی تاہم دوسری جانب عام شہریوں کی پرائیویسی کے متاثر ہونے کے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں۔

موجودہ کام کی رفتار

پولیس ترجمان کے مطابق شہر میں کھدائی، کنکریٹ فلنگ، اور کھمبوں کی تنصیب کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حیات آباد میں 78 فیصد کھدائی اور 67 فیصد اسٹیل فکسنگ و پول اسمبلی کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ پشاور شہر میں ان کیمروں کو فعال کرنے کے لیے 30 نومبر ڈیڈلائین مقرر کیا گیا ہے۔ تاہم، کام کی موجودہ رفتار سے خدشہ ہے کہ یہ کام مقررہ تاریخ تک مکمل نہیں ہو پائے گا۔

بنیادی کردار اور توسیع

آئی جی پی خیبرپختونخوا ذوالفقار حمید کے مطابق یہ منصوبہ صوبے میں جدید ٹیکنالوجی پر مبنی پولیسنگ نیٹ ورک کی بنیاد رکھے گا، جو دہشت گردی کے انسداد اور روزمرہ جرائم کی روک تھام میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب سیف سٹی اتھارٹی منصوبے کے نفاذ میں تکنیکی معاونت فراہم کر رہی ہے۔

توسیعی منصوبہ

یہ منصوبہ ابتدائی طور پر ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور لکی مروت میں شروع کیا جانا تھا، اور آئندہ مراحل میں اسے شمالی وزیرستان، ٹانک، کرک، مردان، کوہاٹ، نوشہرہ، سوات اور ایبٹ آباد تک توسیع دی جانی تھی۔ تاہم، اب وزیر اعلیٰ نے ضم اضلاع کو بھی اس میں شامل کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر پہلے مرحلے میں ضم اضلاع کو شامل نہیں کیا جاتا تو پھر دوسرے مرحلے میں یقینی طور پر انہیں اس کا حصہ بنایا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں