مردان میں 9 سالہ معصوم بچی سے زیادتی اور قتل کیس میں عدالت نے مجرم کو تین بار سزائے موت اور 15 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
مردان کے ایڈیشنل سیشن جج نمبر 5 نے مقدمہ نمبر 287 کا تاریخی فیصلہ سنایا جس کے تحت ملزم اختر حسین کو زیادتی، اغوا اور بچوں کے تحفظ کے قانون کے تحت تین بار سزائے موت اور 15 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ فیصلہ اس دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد سنایا گیا، جس میں ملزم نے 26 مارچ 2020 کو 9 سالہ معصوم بچی کو اغوا کیا، اس کے ساتھ زیادتی کی اور پھر اسے بے رحمی سے قتل کر دیا۔ یہ واقعہ شیخ ملتون تھانے کی حدود میں پیش آیا تھا۔
عدالت نے یہ فیصلہ پولیس کی کامیاب تفتیش، استغاثہ کے مضبوط شواہد اور سینئر پبلک پراسیکیوٹر محمد انعام اور ڈسٹرکٹ کورٹ کے وکیل اسد علی کی انتھک کوششوں کی وجہ سے سنایا، اور متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کیا۔
یہ فیصلہ نہ صرف بچی کے والدین کے زخموں پر مرہم ہے بلکہ معاشرے کو ایک واضح پیغام بھی دیتا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ عوامی حلقوں نے اس فیصلے کو انصاف کی فتح اور قانون کی بالادستی قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ایسے مجرموں کو عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی درندہ صفت شخص معصوم بچوں کی عزت اور زندگی سے کھیلنے کی ہمت نہ کرے۔
پاکستان میں بچوں کے تحفظ کا قانونی فریم ورک
پاکستان میں بچوں کا تحفظ آئینی، وفاقی اور صوبائی قوانین کے ذریعے یقینی بنایا گیا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 اور 35 تمام شہریوں کو برابر کا تحفظ دیتے ہیں اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ خاص طور پر ماؤں اور بچوں کا تحفظ کرے۔
پاکستان پینل کوڈ میں بھی سخت سزائیں شامل ہیں، جیسے کہ دفعہ 376 (زیادتی) اور دفعہ 364-اے (بچوں کا اغوا)، جن میں سنگین جرائم کی صورت میں سزائے موت بھی شامل ہے۔
پاکستان میں زینب کے دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد، وفاقی حکومت نے "زینب الرٹ، ریسپانس اور ریکوری ایکٹ 2020” منظور کیا، جس کے تحت لاپتہ بچوں کے لیے ایک قومی الرٹ سسٹم اور ہیلپ لائن (1099) قائم کی گئی۔
خیبر پختونخوا میں بھی بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ 15 سال قبل "چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010” منظور کیا گیا تھا جس کے تحت صوبے میں بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی عدالتیں بھی قائم کی گئی ہیں تاکہ بچوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور صوبائی حکومت کی طرف سے بچوں کے تحفظ کے لیے ضلعی سطح پر مراکز بھی قائم ہیں۔