صوبہ خیبر پختنخواہ کے صدر مقام پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش بم دھماکے کو دو سال مکمل ہوگئے۔اس دھماکے میں 80 سے زائد پولیس اہلکار ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ 20 جنوری 2023 کو مذکورہ مسجد میں اس وقت بم دھماکا ہوا جب تقریباً 300 سے 400 پولیس اہلکار جمعے کی نماز کے لیے اکھٹے ہوئے تھے۔
اس حملے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دے کر ڈیوٹی پر مامور کئی افسران کو معطل کر دیا گیا جبکہ انسپکٹر جنرل سمیت کئی سینئر افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔اس حملے کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی۔
خود کشں حملہ آور پولیس کی وردی پہنے پولیس لائنز میں داخل ہوا ۔ابتدائی تحقیقات کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا کہ بمبار کو افغانستان میں تربیت دی گئی اور اس کا نام قاری الیاس بتایا گیا۔ بعد میں پولیس یونیفارم میں بمبار کے داخل ہونے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی جاری کی گئی۔
واقعہ کی تحقیقات کے بعد ایک پولیس کانسٹیبل محمد ولی کو حملے میں معاونت فراہم کرنے میں ملوث پایا گیا۔ پولیس اہلکار کو نومبر 2024 میں گرفتار کیا گیا اور وہ اس وقت جیل میں ہے۔ محمد ولی پر کئی دیگر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے بھی الزامات ہیں۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے شروع میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی لیکن بعد میں اس بیان سے پیچھے ہٹ گئ۔ نومبر 2024 میں پولیس کے سربراہ انسپکٹر جنرل اختر حیات خان گنڈاپور نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ یہ حملہ ٹی ٹی پی کے ایک گروپ جماعت الاحرار کے حکم پر کیا گیا تھا۔