2003 ستمبر کے آخری ہفتے میں ایک مخبر جس کی رسائی مقامی اور عالمی جہادی گروہوں جیسے کہ "القاعدہ” تک تھی وہ پاکستان کی سب سے بڑی انٹیلیجنس ایجنسی، انٹر-سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ریجنل دفتر میں داخل ہوا-
یہ شخص جو معلومات ساتھ لے کر آیا تھا اس معلومات کے بنیاد پر پاکستانی تاریخ کا سب سے اہم دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہوا۔ آپریشن باغڑ کو اس پیرائے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں وہ ساری چیزیں نمایاں ہیں جس کی وجہ سے اسلام آباد کے لیے کافی مصیبتیں اکٹھی ہوئیں۔
خراسان ڈائری کے مطابق اس مخبر نے دفتر میں بتایا کہ پاک افغان بارڈر کے مغربی کراسنگ انگور اڈہ، وانا کے عقب میں واقع باغڑ گاؤں میں نامور جہادی رہنما مٹی کے بنے ہوئے گھروں میں اکٹھے ہو چکے ہیں۔
مخبر نے جب اپنی معلومات بتانا شروع کیں تو وہاں پر موجود انٹیلیجنس افسران نے محتاط انداز میں اس کو سنا۔ مگر یہ مخبر مقامی، قابل اعتماد اور بھروسے کے لائق تھا۔ کیونکہ وہ کافی معلومات رکھتا تھا۔
جس انٹیلی جنس آفیسر نے اس مخبر کی معلومات موصول کی ان کا کہنا تھا کہ شروع میں مجھے اس کی بات پر یقین کرنے میں دشواری ہوئی لیکن یہ مخبر بھروسے کے قابل تھا۔ لیکن اس کے پاس اتنی بڑی معلومات ہو گی یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔
اس مخبر کے دعووں کی تصدیق کرنے کے لیے آفیسر نے اسےانتہائی مطلوب دہشت گرد کمانڈرز کی خفیہ تصاویر دکھائیں، جو اس وقت صرف پاکستانی اور امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے پاس تھیں۔ مخبر نے فوراً ان کمانڈرز کی شناخت کی جو اس نے دعویٰ کیا تھا کہ بارڈر ایریا میں موجود ہیں۔ افسر نے کہا کہ اس بات پر میرا اپنےمخبر پر مزید اعتبار بڑھ گیا۔
آفیسر اگلے دن راولپنڈی پہنچا تاکہ اس معلومات کو ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں ڈسکس کر سکے۔ اس دوران ایک اعلیٰ فوجی افسر نے معلومات کی درستگی پر سوال اٹھایا اور افسر کو متنبہ کیا کہ اگر یہ غلط ثابت ہوئی تو اسکا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے۔
اس نے بتایا کہ میں گھبرا گیا کیونکہ ہال میں تمام سینئر فوجی افسران موجود تھے-
مخبر کے دعویٰ کی مزید تصدیق کے لیے انٹیلیجنس افسر نے ایک اور قابل اعتماد مقامی مخبر سے تصدیق چاہی کہ آیا اس مخبر کو اس کمپاؤنڈ تک رسائی ہے جہاں عسکریت پسندوں کے موجود ہونے کا شبہ تھا۔ دوسرے ذرائع نے چند دنوں میں معلومات کی تصدیق کر دی۔
افسر نے بتایا کہ میں نے اپنے سینئرز کو یہ کہہ دیا کہ وہ آپریشن کر سکتے ہیں کیونکہ جو معلومات میں نے دی ہیں وہ واضح اور قابل اعتماد ہیں۔
جس کمپاؤنڈ کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کی گئی تھی یہ ایک بڑا مٹی کے اینٹوں کا گھر تھا جس میں وہ سب کمانڈرز موجود تھے۔ ان میں قابل ذکر نام حسن معصوم (مخدوم) جو کہ uyghurs کا سینئر جہادی تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ایسٹ ترکستان اسلامی پارٹیکا بانی بھی تھا۔ اس کا جہادی نام ابو محمد الترکستانی تھا۔ (ETIP)
ان میں ایک اور نمایاں شخصیت احمد سعید الخدر تھے، جنہیں عبد الرحمان الکنادی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا کیونکہ وہ کینیڈا کے شہری تھے اور القاعدہ کی اعلیٰ قیادت بشمول اسامہ بن لادن کے قریبی معاون تھے۔ الکنادی نے افغانستان پر امریکی حملے کے بعد القاعدہ کے کمانڈرز کے خاندانوں کو وزیرستان منتقل کرنے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔
اس افسر نے بتایا کہ یہ سب پہلے نمایاں جہادی رہنما تھے جنہیں خطے میں ایک مضبوط گڑھ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کے دوران نشانہ بنایا گیا تھا۔
اکتوبر 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے چند ہفتوں بعد طالبان حکومت کا خاتمے ہوا جس کے بعد وزیرستان کا علاقہ طالبان فورسز اور کئی عالمی اتحادی جہادی گروپوں کی پناہ گاہ بن گیا تھا
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نائب کمانڈر اور چیف ملٹری اسٹریٹجسٹ مولانا ولی الرحمان محسود نے فروری 2012 میں مصنف کے ساتھ ایک انٹرویو میں وزیرستان کو جہادیوں کے لیے پناہ گاہ اور مضبوط گڑھ کی اہمیت دی تھی۔ ولی الرحمان محسود کے سر پر امریکی حکومت کی طرف سے 50 لاکھ ڈالر کا انعام تھا، جسے 2013 میں قبائلی ضلع وزیرستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ولی الرحمان محسود نے کہا، "جب امارت (طالبان کہ پہلی حکومت ) گر گئی تو ہم نے وزیرستان کو جہاد کا آخری قلعہ بنا دیا۔ اللہ نہ کرے، اگر وزیرستان شکست خوردہ ہوا تو جاری جہاد بھی شکست کھا جائے گا ۔ یہ (وزیرستان) ہر مجاہد کو چاہے وہ کسی بھی قومیت یا مسلک سے ہو، پناہ دیتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔”
امریکہ نے افغانستان سے وزیرستان فرار ہونے والے جہادیوں پر کڑی نظر رکھی اور اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کی حکومت پر کارروائی کرنے کے لیے سخت دباؤ ڈالا گیا- اس کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کئی آپریشن شروع کیے اور خطے میں امریکی فوج کی محدود تعیناتی کی اجازت بھی دے دی گئی ۔ آخرکار امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں کو دو اہم فوجی چھاؤنیوں میں تعینات کیا گیا۔ ایک وانا، جنوبی وزیرستان کے علاقے میں اور دوسرا میران شاہ، شمالی وزیرستان میں۔
باغڑ آپریشن کرنے کی اجازت مل گئی تھی اور پاکستان کے ایلیٹ سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کو اسے آپریشن کو سرانجام دینے کا کام سونپا گیا۔ اس مشن کے لیے ایم آئی-17 اور کوبرا گن شپ سمیت متعدد ہیلی کاپٹرز تعینات کیے گئے تھے ۔
مگر اس دن جیسے ہی ہیلی کاپٹرز نے پرواز بھری موسم اچانک خراب ہو گیا، جس کی وجہ سے انہیں قریبی جنوبی ضلع بنوں میں اترنا پڑا، جو اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ (این ڈبلیو ایف پی) تھا، اب خیبر پختونخوا ہے۔
افسر نے بتایا کہ خراب موسم کی وجہ سے آپریشن کو ایک دن کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ باغڑ آپریشن اگلے دن باقاعدہ طور پر شروع کیا گیا۔ امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے اہلکاروں نے بھی اس آپریشن میں حصہ لیا۔ اہلکار نے کہا کہ ہم ان امریکیوں کو دوست کہتے تھے جو آپریشن کے دوران ان کا کوڈ تھا۔
اس افسر نے بتایا کہ وہ اپنے وانا دفتر میں بے چینی سے بیٹھا تھا، یہ امید اور دعا کر رہا تھا کہ اس کے مخبر کی معلومات درست ثابت ہو ۔ یہ آپریشن جو تقریباً ایک دن تک جاری رہا اسے ایک صدی کی طرح محسوس ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہر منٹ ایک گھنٹے کی طرح لگتا تھا کیونکہ مجھے آپریشن کے نتیجے کی فکر تھی۔ کیونکہ یہ پاکستان کا پہلا اعلیٰ سطحی دہشت گردی کے خلاف آپریشن تھا، جو مکمل طور پر میری فراہم کردہ معلومات پر مبنی تھا۔
دریں اثناء یہ زمینی حقائق موصول ہوئیں کہ اس کے مخبر کی نشاندہی کردہ تمام اہداف، عسکریت پسندوں کو ختم کر دیا گیا ہے، اور ان کی لاشیں اب اسپیشل فورسز کے قبضے میں ہیں۔
اس اہلکارنے بتایا کہ آپریشن کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے، جن میں کنادی اور معصوم شامل ہیں۔ جبکہ کچھ عسکریت پسندوں کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ جبکہ اس آپریشن میں ہمارے ایس ایس جی کے اہلکاروں کا بھی جانی نقصان ہوا۔
پاکستان آرمی کے اس وقت کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان نے بین الاقوامی میڈیا کو بتایا کہ 2 اکتوبر کو کیے گئے آپریشن میں حسن معصوم سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے، جبکہ 18 دیگر افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ آپریشن کے دوران دو پاکستانی فوجی بھی جاں بحق اور دو زخمی ہوئے۔
ایک جہادی ذرائع جو کہ حسن معصوم اور کنادی کے آخری حرکات و سکنات کے بارے میں معلومات ہونے کا دعوٰی کیا کرتا تھا اس نے بتایا کہ پاکستانی اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اسلامی تحریک ازبکستان (IMU) کے رہنما طاہر جان یلداشف اور ایک افسانوی مصری جہادی مفکر شیخ مرجان سلیم المعروف شیخ عیسیٰ کی تلاش تھی جہاں معصوم اور کنادی رہ رہے تھے۔
اس جہادی ذرائع نے بتایا کہ وہ(انٹیلیجنس ایجنسییاں )طاہر جان اور شیخ عیسیٰ کی تلاش میں تھے، انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہاں پر ابو محمد (حسن معصوم) اور الکنادی موجود ہیں۔البتہ طاہر جان کچھ دن پہلے ہی اسی کمپاؤنڈ میں تھا۔
اس آفیسر نے بتایا کہ پاکستان کے ایلیٹ سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے کمانڈر میجر جنرل امیر فیصل علوی نے باغڑ میں آپریشن کی قیادت کی۔ بعدازاں ایک افسوسناک واقعہ جس میں جنرل علوی کو نومبر 2008 میں اسلام آباد کے مضافات میں، ان کی ریٹائرمنٹ کے دو سال سے بعد موٹر سائیکل پر سوار اسلحہ بردار افراد نے نشانہ بنایہ اور ان کی گاڑی پر فائرنگ کی جس سے وہ اور ان کا ڈرائیور موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔
جنرل علوی کے قتل کا واقعہ پراسرار رہا۔ تاہم ایک سینئر پاکستانی پولیس آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ القاعدہ سے جڑے لوگوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس واقعہ کئ تفتیش کے دوران ایک سابق فوجی اہلکار جو اب ایک عسکریت پسند بن چکا ہے نے میجرجنرل علوی پر حملے کو خود انجام دینے کا اعتراف کیا، اور القاعدہ کے رہنما کنادی کی ہلاکت کو اس کا بنیادی محرک بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ اس متعلق باقی دعوے تمام روایتی سازشی نظریات ہیں۔
ایک جہادی ذرائع نے بھی اس پولیس افسر کے بیان کی تصدیق کی اور اس نے کہا کہ جنرل علوی کو انتقامی کارروائی میں ہلاک کیا گیا۔
اس آپریشن میں پاکستان نے سی آئی اے کی مدد سے چین کو انتہائی مطلوب دہشت گرد رہنما کا خاتمہ کیا جو بیجنگ کئی سالوں سے خود نہ کر سکا۔
باغڑ آپریشن کی کامیابی نے پاکستان کو حوصلہ دیا کہ وہ آنے والے سالوں میں ملک بھر میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کا پیچھا کرے۔ جہاں پاکستان نے عالمی دہشت گردی کے خطرات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہیں ہم خود ایک بار پھر دہشت گردی میں تیزی سے اضافے کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف خفیہ کارروائیوں کے ماہر افسر نے ناخوشگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم(پاکستان )نے اپنے نقصانات کے بدلے دنیا کو محفوظ رکھا، اور اب حالات یہ ہیں کہ ہمارے علاوہ تقریباً سب ہی پرامن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری دہائیوں پر محیط دہشت گردی کے خلاف جانی اور مالی قربانیوں پر حاصل کی گئی کامیابیاں ایک بار پھر سے ضائع ہوتی دکھائی دے رہی ہیں لیکن امید ہے کہ وقت رہتے پاکستان اپنے آپ کو دوبارہ مضبوط کر لے گا۔