جنوری 2025میں شمالی وزیرستان کے کالعدم حافظ گل بہادر گروپ کے ایک اعلیٰ کمانڈر نے علیحدگی اپنے گروپ سے اختیار کی اور تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا- اس ایک فیصلے سے ایسا عمل شروع ہوا جس سے جہادی گروپوں میں مزید چپقلش پیدا ہونا شروع ہو گئی۔
اہداف میں ہم آہنگی ہونے کے باوجود ایسے گروپس جو کہ ریاست کے خلاف لڑتے ہیں، کئی مرتبہ ان کی آپس میں بھی لڑائیاں ہو جاتی ہیں۔ طالبان کی تحریک خود 90 کی دہائی میں سوویت فورسز کے انخلاء کے بعد ان گروپس کے مابین پیچیدہ کشمکش کے باعث ابھر کےسامنے آئی۔ ان کے ضمنی گروپ تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد 2007 میں رکھی گئی جو شروعات سے اختلافات کا شکار رہی۔ اس گروپ میں قیادت کا کوئی واضح طریقہ 2018 تک سامنے نہیں آیا۔
حافظ گل بہادر سب سے پرانے جہادیوں میں سے ایک ہیں۔ تاہم انہوں نے تحریک طالبان پا کستان کے ساتھ مکمل اتحاد نہیں کیا۔ دونوں گروپس کے درمیان تین بار سے زائد دفعہ اتحاد کی کوششیں کی گئیں مگر اتحاد زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکا۔ اس کی وجوہات جہادی کاروایئوں کے عملی اختلافات کے ساتھ ساتھ نظریاتی جانبداری اور قبائلی بھی ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ سربراہ نور ولی محسود نے اپنی کتاب "انقلاب محسود” میں لکھا کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جہاں ملا بیت اللہ محسود کو پہلا امیر اور مولانا فقیر محمد کو نائب امیر مقرر کیا گیا۔ اس وقت یہ سوال اٹھایا گیا کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا اور شمالی وزیرستان کے مجاہدین کو تحریک میں کیوں نہیں شامل کیا گیا اور آیا انہوں نے اسے خود مسترد کیا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان تمام فیصلوں سے پہلے مولوی محمد عمر (باجوڑ چیپٹر)اور بیت اللہ محسود کے درمیان میرانشاہ میں تمام قبائل کو اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وانا اور شمالی وزیرستان کے مجاہدین کو اعتماد میں لے کر تحریک طالبان پاکستان آغاز کرنے کا فیصلہ کیا لیکن وانا طالبان کے امیر مولوی نذیر اور ان کے ساتھیوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ وہ ازبکوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔
ٹی ٹی پی کی تشکیل سے پہلے محسود قیادت نے ازبکوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش ناکام رہی، کیونکہ ازبک مولوی نذیر اور ان کے ساتھیوں کو لاشکری(ایک جہادی لغت ہے جو جہادی تنظیمیں حکومتی سرپرستی میں کام کرنے والی جماعتوں کے لیے حقارت کے معنی میں استعمال کرتے ہیں) سمجھتے تھے۔ ملا نذیر نے شمولیت سے پہلے حافظ گل بہادر سے کرنے کے بات کی جس پر بیت اللہ محسود نے کہا کہ اگر آپ ان سے مشورہ کرینگے تو اتحاد کی کوئی امید نہیں رہے گی۔
ملا نذیر اور گل بہادر کا تعلق وزیرستان کے سب سے بڑے قبیلے وزیر سے ہے۔ یاد رہے کہ محسود اور وزیر قبائل کی روایتی دشمنی برطانوی راج سے بھی پہلے کی مشہور ہے۔
نور ولی مزید کہتے ہیں کہ حافظ گل بہادر اور ملا نذیر کی شمولیت نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ صرف افغاں جہاد پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اتحاد کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ اور القاعدہ کے رہنماوں نے شمالی وزیرستان اور وانا سب ڈویژن کے مجہادین کو ٹی ٹی پی میں شامل کرنے کی کوششیں کی مگر حافظ گل بہادر نے یہ شرط رکھ لی کہ تنظیم کا امیر ملا بیت اللہ محسود کے علاوہ کسی اور کو بنایا جائے۔
بیت اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد حافظ گل بہادر نے یکطرفہ طور پر حکومت کے ساتھ اپنے پچھلے معاہدوں کو بحال کر لیا اور نتیجتاَ دونوں گروپوں کے درمیان اتحاد ختم ہوگیا۔ بظاہر اس وجہ سے فوجی آپریشن "راہِ نجات” محسود قبائل کے علاقوں پر مرکوز رہا۔
یہ اختلافات مزید کھل کے سامنے آئے جب حکومت پاکستان نے پاکستانی طالبان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جس میں حافظ گل بہادر گروپ نے سب سے پہلے 20 دنوں کی جنگ بندی پر اتفاق کیا مگر جیسے ہی ان کو خبر ملی کہ تحریک طالبان پاکستان کو بھی جنگ بندی کے حوالے سے آمادہ کیا جا رہا ہے، انہوں نے ایک طرفہ طور پر جنگ بندی سے انحراف کیا اور اس کے بعد وہ کسی بھی ملاقات میں شریک نہیں ہوئے۔
اگرچہ حالیہ دنوں میں ریسورسز کی پریشانی کے باوجود ان گروپوں کے سیکیورٹی فورسز کے خلاف کافی کارروائیاں کی ہیں۔
جب سے تحریک طالبان پاکستان نے 62 کے قریب مختلف جہادی دھڑوں کو یکجا کیا ہے حافظ گل بہادر نے اپنے گروپ کو نئے انداز میں ترتیب دیا ہے اور پہلی بار بنوں ڈویژن سے باہر اپنا اثرورسوخ بڑھایا ہے۔جیسے ہی علی داوڑ نے حافظ گل بہادر گروپ سے علیحدگی اختیار کی اور ٹی ٹی پی سے جا کر مل گئے اسی وقت حافظ گل بہادر نے بھی اپنی تگ و دو شروع کر دی جس کے نتیجے میں خیبر قبائلی ضلع کے لشکر اسلام گروپ نے حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ اپنا الحاق کر لیا۔
2025 میں اب تک تحریک طالبان پاکستان نے چار جبکہ حافظ گل بہادر گروپ نے تین نئے گروپس کی شمولیت کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ قبائلی تعصبات اور علاقائی برتری کی سیاست جہادی تنظیموں کے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد اور ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے ساتھ، علاقائی کشمکش میں بھی تبدلیاں رونماں ہونگی۔ نئے اتحاد سے پرانے اتحادیوں کو تبدیل کیا جائیگا۔ تحریک طالبان پاکستان اور حافظ گل بہادر ایک بار پھر اسی پرانے کھیل کو دوہرائیں گے جو کہ وہ ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھیل چکے ہیں۔