اسلام آباد پولیس نے منگل کو بتایا ہے کہ معروف ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کا ملزم عمر حیات کے اقبالی بیان کے مطابق ’بار بار انکار‘ کا نتیجہ تھا۔
17 سالہ ٹک ٹاکر، ثنا یوسف کو پیر کی شام اسلام آباد میں ان کے گھر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے نے سوشل میڈیا پر غم و غصے کو جنم دیا ہے اور پاکستان میں سوشل میڈیا انفلوینسرز کی حفاظت کے بارے میں نئے خدشات پیدا کر دیے ہیں۔
یوسف، جن کے ٹک ٹاک پر 740,000 سے زیادہ فالوورز تھے، مبینہ طور پر اپنی خالہ کے ساتھ گھر پر تھیں جب ایک مشتبہ شخص، جس کی شناخت عمر حیات (جسے "کاکا” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کے طور پر ہوئی ہے، ان کے گھر داخل ہوا ہے۔ خالہ کے مطابق گولی مارنے سے پہلے ایک مختصر گفتگو ہوئی تھی جس مین ثنا یوسف نے مبینہ طور پر مشتبہ شخص کو جانے کو کہا تھا اس سے پہلے کہ اس نے اسے سینے میں دو گولیاں مار دیں۔
قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور پولیس نے جرم کے تقریباً 20 گھنٹے بعد فیصل آباد میں عمر حیات عرف کاکا سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائل ڈیٹا کے مدد سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق اس کیس کے حل کے لیے 7 ٹیمیں تشکیل دی تھی۔
حیات، جو خود بھی ایک ٹک ٹاکر ہے، نے قتل کا اعتراف کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ مقتولہ کا دوست تھا۔ پولیس نے آلہ قتل اور مشتبہ شخص کے کپڑے برآمد کر لیے ہیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں حیات کو جائے وقوعہ سے پرسکون انداز میں جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے بظاہر وہ گاڑی میں فرار ہونے سے پہلے اپنے فون کا استعمال کر رہا تھا۔
جبکہ مشتبہ شخص زیر حراست ہے، محرکات کی تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم، آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نے کہا ہے کہ قتل ’بار بار انکار‘ کا نتیجہ تھا۔
یہ افسوسناک واقعہ پاکستان میں خواتین تخلیق کاروں کو نشانہ بنانے والے حملوں کے سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔ اسی طرح کے واقعات حال ہی میں خوشاب، پشاور، کوئٹہ، اور سیالکوٹ میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور پوسٹ مارٹم رپورٹ مکمل ہونے کے بعد مزید اپ ڈیٹس کی توقع ہے۔