اب گڈ، بیڈ نہیں رہا

گزشتہ دو دہائیوں سے خطے میں جاری جنگ کو رپورٹ کرنے کے مواقع ملے لیکن ستر سے زائد عسکریت پسندوں کی شمالی وزیرستان سے ملحقہ پاک افغان سرحدی علاقے میں اموات کا منظر کبھی نہیں دیکھا۔ شمالی وزیرستان سے ملحقہ پاک افغان سرحد کے اس پار موجود عسکریت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر کے حوالے سے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت جنوبی وزیرستان میں جو تباہی مچائی جا رہی ہے اس کا تمام تر سہرا حافظ گل بہادر کے سر باندھا جا سکتا ہے۔ چاہے پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حملے ہوں یا عمائیدین کی ٹارگٹ کلنگ یا اغوا، یہ تمام کارروائیاں حافظ گل بہادر گروپ کی جانب سے کی جا رہی ہیں۔ حافظ گل بہادر کا شمار کبھی صرف افغانستان تک محدود تھا اور وہ زیادہ تر امریکی اتحادی افواج یا پھر افغان فورسز کے خلاف لڑتے رہے۔ اس لیے کبھی پاکستان میں زیادہ متحرک نہیں رہے اور یہاں تمام تر کارروائیاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی زیر کمان ہی جاری رہیں۔ حافظ گل بہادر کا دائرہ اثر بھی زیادہ تر سرحد کے قریب دتہ خیل کے علاقے میں ہی رہا اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر امریکی ڈرون اس علاقے کو ہی نشانہ بناتے رہے۔ جب 2007ء میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو وہ براہ راست اس کا حصہ تو نہیں بنے لیکن اس مجاہدین شوری کا حصہ ضرور بنے کہ جس میں کالعدم تحریک طالبان بھی شامل تھی۔ اس وقت عسکریت پسند تنظیموں کی ساخت بھی عجیب تھی۔ جہاں محسود قبائل کی قیادت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان متحرک تھی وہاں شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے وزیرقبائل نے اپنی علیحدہ علیحدہ تنظیمیں بھی بنائی تھیں۔ البتہ داوڑ قبیلے کے جوان شمالی وزیرستان کی حد تک تحریک طالبان پاکستان اور حافظ گل بہادر دونوں تنظیموں میں موجود رہے۔
اس وقت بھی خبریں آیا کرتی تھیں کہ چالیس سے زائد عسکریت پسند مارے گئے یا بیس سے زائد عسکریت پسندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ مقامی حکام سے مجھے پوچھنا پڑا کہ اگر اتنی تعداد میں عسکریت پسند مارے جا رہے ہیں تو ہزاروں قبروں پر مشتمل وہ قبرستان کہاں ہے کہ جہاں ان کو دفنایا جاتا ہے۔ آگے سے کہا گیا کہ عسکریت پسند جاتے ہوئے اپنے ساتھ لاشیں بھی لے جاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت افغانستان سے لائے گئے عسکریت پسند جنگجوؤں کے جنازوں کی ادائیگی بھی پورے اہتمام سے کی جاتی تھی مقامی عسکریت پسندوں کے جنازوں کو چھپانا تو ممکن ہی نہیں تھا۔
بہرحال جب حافظ گل بہادر خوست پہنچے تو اس کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ خوست کے گلان کیمپ میں اس کے ساتھ جانے والے خاندانوں کو جگہ دی گئی جب کہ اس کے افغان اداروں کے ساتھ بھی روابط قائم ہوگئے۔ اس دوران لمنہ کے مقام پر اس نے مستقبل کے لیے ایک بیس کیمپ بنا دیا۔ اگست 2021ء میں سقوط کابل کے بعد جب پاکستانی حکام نے مذاکرات کا آغاز کیا تو حافظ گل بہادر گروپ سے بھی قبائلی عمائدین کے ذریعے رابطہ قائم کیا گیا۔ اس سے ناراضگی یہ تھی کہ اس نے کبھی بھی پاکستان کے اندر عسکریت پسندی کو فروغ نہیں دیا پھر اسے کیوں تحریک طالبان پاکستان کی طرح دہشت گرد بلایا جا رہا ہے۔ بہرحال اس کی جانب سے مطالبہ یہ آیا کہ پوری تحصیل دتہ خیل اس کے حوالے کی جائے جہاں ایک لحاظ سے اسی کی حکومت ہو اور وہ اس علاقے سے باہر کسی سے سروکار نہیں رکھے گا۔ تاہم حکومت کے لیے یہ شرط ہر گزقابل قبول نہیں تھی۔ اس دوران جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اپنے بیشتر مطالبات منوانے اور مذاکرات میں مظبوط پوزیشن اختیار کرنے کے لیے حملے تیز کیے تب حافظ گل بہادر نے بھی یہی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد مذاکرات معطل ہوگئے اور پھر ایک نئی جنگ کا آغاز ہوا۔ چونکہ اب حافظ گل بہادر نے بھی ٹی ٹی پی کی طرح پاکستان کے اندر حملے تیز کر دیئے اس لیے فورسز کی جانب سے بھی اس گروہ کے خلاف سخت آپریشن شروع کر دیئے گئے۔ دراصل اسی پالیسی کی وجہ سے یعنی “گڈ طالبان” اور “بیڈ طالبان” کی وجہ سے عوام اور اداروں کے بیچ فاصلے بڑھے۔ جب طالبان صرف ڈرون حملوں میں ہی مرا کرتے تھے تب عوام میں یہ تاثر پھیلا کہ یہ سب ملی بھگت ہے۔
لیکن موجودہ قیادت اس حوالے سے بڑی حد تک وضاحت لے آئی ہے اور جوں جوں عوام عسکریت پسندوں کی لاشیں اپنے سامنے دیکھ رہی ہے ان کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان ایک ہندو انتہا پسند قوت کے سامنے کھڑا ہوگیا ایسے میں تاریخ کی سب سے بڑی تشکیل کے ساتھ حافظ گل بہادر کے جنگجوؤں کا سرحد پار کرکے شمالی وزیرستان پر حملہ کرنا اس کی بڑی حماقت تھی۔ ایسے میں اس کے ستر ساتھیوں کی موت اور پاکستانی فورسز کی تحویل میں اتنی بڑی تعداد میں لاشیں اس بات کا ثبوت ہے کہ بہت کچھ بدل چکا ہے اور اب سرحد آرپار پاکستانی طالبان کے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ خطرات بڑھ چکے ہیں۔ ایسے میں اگر وہ ردعمل کے طور پر کہیں پر بھی عوامی نقصان کا باعث بنتے ہیں تو عوامی سطح پر اگر کہیں نرم گوشہ موجود ہے بھی تو وہ ختم ہو جائے گا

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں