خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ آف ایڈمشن کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، طلباء کی کم تعداد میں داخلے کی وجہ سے یونیورسٹی آف پشاور (یو او پی) کے نو (9) مختلف شعبوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ حکام نے واضح کیا ہے کہ یہ اقدام ایک نئی پالیسی کا حصہ ہے۔
حکومتی پالیسی اور وزیر کا موقف
سابق صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم، مینا خان نے میڈیا کو اس فیصلے کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ڈیپارٹمنٹس کو بند کرنے کا عمل ایک طے شدہ پالیسی کے تحت کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت ایسے مضامین کے ڈیپارٹمنٹس کو مرحلہ وار بند کرے گی جو مارکیٹ میں روزگار کے مواقع پیدا نہیں کرتے۔
مینا خان نے مزید کہا کہ "یہ انفراسٹرکچر ان مضامین کو منتقل کیا جائے گا جو مارکیٹ میں نوکریوں کا سبب بنتے ہیں اور ان سے فارغ التحصیل طلباء نظام پر بوجھ نہیں بنتے۔”
انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ "ان ڈیپارٹمنٹس میں جو طلباء اس وقت ہیں اور جن کی ڈگری جاری ہے، ان کی تعلیم جاری رہے گی، لیکن اگر طے شدہ ہدف (15) سے کم طلباء آتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ بند کر دیے جائیں گے۔”
بند کیے جانے والے ڈیپارٹمنٹس کی تفصیلات
یونیورسٹی آف پشاور کے نوٹیفکیشن کے مطابق، وہ نو ڈیپارٹمنٹس جو کم داخلوں کی وجہ سے بند کیے جا رہے ہیں، ان میں اس سال داخلہ لینے والے طلباء کی تعداد یوں ہے:
- بی ایس ڈیولپمنٹ سٹڈیز پروگرام: (صرف 2 طلباء)
- جغرافیہ: (3 طلباء)
- جیولوجی: (14 طلباء)
- ہسٹری ڈیپارٹمنٹ: (3 طلباء)
- سوشل اینتھروپالوجی: (5 طلباء)
- شماریات: (7 طلباء)
- لاجسٹکس اینڈ سپلائی چین: (2 طلباء)
- ہیومن ڈیولپمنٹ اینڈ فیملی سٹڈیز: (1 طالب علم)
- ایکنومکس: (2 طلباء)
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ان طلباء کو یونیورسٹی کے کسی دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ دیا جائے گا۔
اساتذہ کی تنظیم کا رد عمل: ‘حکومت اور انتظامیہ کی غفلت‘
یونیورسٹی آف پشاور کے اساتذہ کی تنظیم کے صدر ذاکر ارچ نے حکومتی فیصلے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت طلباء کی کم تعداد کو مسئلہ قرار دیتی ہے تو یہ صورتحال صرف پشاور یونیورسٹی میں نہیں بلکہ تمام یونیورسٹیوں میں ہے کیونکہ یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ پشاور یونیورسٹی میں 17 نئے ڈیپارٹمنٹس بھی کھولے گئے ہیں، جس کا اثر ان پرانے ڈیپارٹمنٹس پر پڑا ہے جو اب بند کیے جا رہے ہیں۔ ذاکر ارچ نے انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہاں اکثر یونیورسٹی انتظامیہ داخلہ مہم بھی نہیں چلاتی اور طلباء اور ان کے والدین کو انتظامی وجوہات کی بنا پر تنگ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے طلباء دوسری یونیورسٹیوں یا ڈیپارٹمنٹس کی طرف چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "یہاں فیسیں بہت زیادہ ہیں، حکومت کی غفلت بھی اس میں شامل ہے نہ صوبائی اور نہ وفاقی حکومت کی ترجیحات میں تعلیم شامل ہے۔”
ذاکر ارچ نے مزید کہا کہ جب یونیورسٹیوں میں فیس 70 ہزار روپے تک ہوتی ہے اور وہی بی ایس پروگرام کالج میں 6 ہزار فیس میں دستیاب ہو تو طلباء خود بخود کالج کی طرف جائیں گے اور اس کا براہ راست اثر یونیورسٹیوں پر پڑے گا۔
مالی بحران اور بجٹ میں کمی کی بحث
اساتذہ کی تنظیم کی رکن ڈاکٹر عذیر نے کہا کہ حکومت کی جانب سے سنجیدگی نہ دکھانا اور بجٹ فراہم نہ کرنا بنیادی وجوہات ہیں جو اس صورتحال کا سبب بنیں۔ ان کے مطابق، بجٹ نہ ملنے سے یونیورسٹی اور ہاسٹلز کی فیسیں بڑھ جاتی ہیں اور حکومت اپنے پیسے پورے کرنے کے لیے دکانوں کے کرایے بھی بڑھا دیتی ہے، جس کا بوجھ بھی طلباء پر پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عام لوگوں کے اخراجات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ چار سال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے میں غریب طلباء یا تو کالجوں کی طرف جاتے ہیں یا پھر ایسے ڈیپارٹمنٹس کی طرف، جن میں انہیں نوکری ملنے کی زیادہ امید ہو۔
حکومت کی طرف سے بجٹ کی تفصیلات
سابق وزیر اعلی تعلیم مینا خان نے صوبے کی یونیورسٹیوں کے مالی استحکام کے حوالے سے حکومتی عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے لیے اس سال 10 ارب روپے مختص کیے ہیں، جن میں سے 5.6 ارب روپے اکتوبر تک جاری کیے جا چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "ہم نے پنشن کے مد میں جو ذمہ داریاں تھیں انہیں ختم کر دیا ہے اور اس کے لیے 3.6 ارب روپے جاری کیے ہیں۔” مینا خان نے امید ظاہر کی کہ "آنے والے وقت میں تمام یونیورسٹیاں مالی بحران سے نکل جائیں گی۔”
تاہم، پشاور یونیورسٹی نے ڈیپارٹمنٹس کی بندش سے متعلق وضاحتی بیان جاری کیا ہے، جس میں تصدیق کی گئی ہے کہ کسی بھی شعبے کو بند نہیں کیا جا رہا۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ صرف چند پہلے سمسٹر کے پروگرامز جن میں داخلے کم (15 سے کم طلباء) تھے، انہیں معمول کے تعلیمی اقدام کے تحت، معیاری تعلیم اور وسائل کے بہترین استعمال کو یقینی بنانے کے لیے عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔ تمام شعبے معمول کے تدریسی، تحقیقی اور انتظامی سرگرمیوں کے ساتھ مکمل طور پر فعال ہیں، اور تیسرے، پانچویں، ساتویں سمسٹرز، ایم ایس، ایم فل، اور پی ایچ ڈی کے تمام جاری پروگرامز معمول کے مطابق جاری ہیں۔ یونیورسٹی نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ درست معلومات کے لیے صرف یونیورسٹی کے سرکاری ذرائع پر انحصار کریں۔
خیبر پختونخوا میں اس وقت قریب 34 یونیورسٹیاں ہیں اور محققین کا کہنا ہے کہ ان میں سے 20 یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہیں تاہم حکومتی افسران کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اعلیٰ تعلیم کا بجٹ کئی گنا بڑھایا ہے اور جلد ہی یہ یونیورسٹیاں مالی بحران سے نکل جائیں گی