بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ کار اختیار کر رہا ہے جس سے وہ مسلم اکثریتی علاقے میں خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے سیاسی اداکاروں اور تنظیموں کو قابو کر سکے۔ بھارت کے جبری اقدامات خاص طور پر آزادی کے حامی کیمپ کو نشانہ بنا رہے ہیں جو بھارتی تسلط سے مکمل آزادی اور کشمیری عوام کے ذریعے کشمیری معاملات پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس نقطہ نظر کو بھارت کے اتحاد کے ایک اہم جز کے طور پر پیش کیا ہے جب ملک بھر میں اقلیتوں کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔
بھارت مقبوضہ کشمیر میں حریت سے خالی سیاسی نظام بنانے عمل پیرا ہے؛ حریت کو ختم کرنے اور اسے یا تو مقبوضہ جموں و کشمیر کی مسلم جماعتوں سے تبدیل کرنے یا حریت کے اندر سے ایک نیا فارورڈ بلاک تشکیل دینے کی دو طرفہ حکمت عملی کے ذریعے کرانے کی کوشش میں ہے۔
اب تک تین حریت تنظیموں نے آزادی کے حامی کیمپ سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ ان میں جموں و کشمیر پیپلز موومنٹ ، جموں و کشمیر ڈیموکریٹک پولیٹیکل موومنٹ، اور جموں میں قائم جموں و کشمیر فریڈم موومنٹ شامل ہیں۔
گزشتہ کئی مہینوں سے، انٹیلی جنس بیورو کی قیادت میں بھارتی وزارت داخلہ کی ایک ٹیم حریت کیمپ کو کمزور اور ختم کرنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں پاکستان مخالف جذبات کو کچلنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
اس ٹیم نے نئی دہلی کی تہاڑ جیل اور جموں کی کوتھبالوال جیل میں شبیر شاہ، یاسین ملک، آسیہ اندرابی، مسرت عالم بھٹ اور مشتاق الاسلام سمیت کئی قید حریت رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے ان رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ آزادی کا مطالبہ ترک کر دیں اور پاکستان سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن حریت رہنماؤں نے واضح الفاظ میں انکار کیا ہے۔
بعد ازاں اس مہینے بھارتی انٹیلی جنس بیورو کی ٹیم نے تقریباً تمام حریت جماعتوں کے سربراہوں سے الگ الگ ملاقات کی جو زیر حراست نہیں ہیں، ان پر زور دیا گیا کہ وہ مرکزی دھارے (بھارت نواز سیاست) میں شامل ہوں۔ ان سے کہا گیا کہ وہ حریت سے اپنی علیحدگی کا عام اعلان کریں بصورت دیگر گرفتاری کی وارننگ دی گئی۔
دریں اثنا بھارت کی گرفتاریوں اور جبر کی حکمت عملی سیاسی دباؤ کے ساتھ جاری ہے۔
سال کے آغاز سے بھارتی حکام نے 36 حریت رہنماؤں کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے ہیں اور ان میں سے چھ سے علیحدگی کے اعلانات زبردستی حاصل کیے گئے ہیں۔
25 جنوری کو پولیس نے سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کی تلاشی لی اور ایک حصہ ضبط کر لیا۔ ایک ماہ بعد 25 فروری کو پولیس نے کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مارے اور انہیں ممنوعہ تنظیموں کا لٹریچر رکھنے اور بیچنے کے خلاف خبردار کیا۔
مارچ میں حریت رہنماؤں کے خلاف چھاپوں اور گرفتاریوں کی ایک نئی لہر شروع ہوئی۔ پارٹی کے سربراہوں سے حریت سے علیحدگی کے اعلانات کا مطالبہ کیا گیا ۔ میر واعظ عمر فاروق کی عوامی ایکشن کمیٹی اور جموں و کشمیر اتحاد المسلمین پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ ان پر علیحدگی پسند نظریے کی حمایت کا الزام لگایا گیا۔
بھارت کی طرف سے استعمال ہونے والے جبر کے آلات میں حریت رہنماؤں اور ساتھیوں سے حریت تحریک سے علیحدگی کے لیے جائیداد کی ضبطی، کاروبار کی بندش، بچوں کو دھمکیاں اور خواتین رشتہ داروں کو جنسی ہراسانی بھی شامل ہے۔
مارچ 2025 میں بھارتی حکومت نے ریاستی حکومتوں کو عوامی ایکشن کمیٹی کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت اختیارات استعمال کرنے کا اختیار دیا جسے ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیا گیا ہے۔ اس اقدام سے ریاستوں کو یو اے پی اے کی دفعات 7 اور 8 استعمال کرنے کا اختیار ملتا ہے، جس سے کالعدم گروہوں سے منسلک جائیدادوں کو ضبط کیا جا سکتا ہے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
بھارت موجودہ صورتحال کے حوالے سے حریت اور مسلح مزاحمتی گروپوں کی خاموشی اور عام لوگوں سے ان کے منقطع ہونے کی وجہ سے یہ دباؤ ڈالنے کے قابل ہے۔ بھارتی پالیسی خطے میں ڈوگروں اور پنڈتوں کی رائے کا خیال رکھتی ہے لیکن مسلم اکثریتی آبادی سے مکمل طور پر بے خبر۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے ہتھکنڈوں کے باوجود بھارتی قبضے کو شکست دینے کے لیے عام کشمیری عوام کا عزم مضبوط اور توانا ہے۔