پاک-افغان خرلاچی سرحد اور ٹل-پاراچنار شاہراہ منگل کے روز بھی بند رہیں حالانکہ پچھلے کئی دنوں سے وقفے وقفے سے امدادی قافلے گزرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ شاہراہ اب تقریباً چار ماہ سے بند ہے۔
تاجر یونین کے سربراہ حاجی رؤف حسین نے منگل کے روز کہا کہ راستوں کی بندش کی وجہ سے کرم میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے اور حکومت کی جانب سے بھیجی جانے والی امداد ضلع کی بڑی آبادی کے لیے ناکافی ہے۔
رؤف نےبتایا کہ کرم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کم از کم 500 ٹرکوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سامان سے لدے ٹرک جیسے ہی پاراچنار پہنچتے ہی ان کا سامان فوراً فروخت ہو جاتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان ڈرگز اینڈ کیمسٹ ایسوسی ایشن کے صدر محمد حنیف نے کہا کہ علاقے میں ادویات کی فراہمی نہ ہونے کے خلاف احتجاجاً پاراچنار کے تمام اسپتال اور ادویات سنٹرز بند رہیں گے۔
حنیف نے بتایا ہے کہ کرم کے لوگوں کو اس وقت سب سے زیادہ ادویات کی ضرورت ہے، لیکن ادویات لے جانے والے ٹرک ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے تیار ہونے کے باوجود علاقے میں داخل نہیں ہو سکے۔
اطلاعات کے مطابق ضلعی انتظامیہ ضلع میں بنکرز کو مسمار کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس وجہ سے یہ عمل کئی دنوں سے معطل ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے بتایا کہ بنکرز کی مسماری کا نیہ سلسلہ شروع کیا جائے گا اور سب سے پہلے بالشخیل اور خرکلی میں بنکرز کو نشانہ بنایا جائے گا کیونکہ یہ قبائلی تنازعے کے دوران سب سے زیادہ متحرک علاقے تھے۔
کرم گزشتہ دو ماہ سے زیادہ عرصے سے مسلح تنازعے کے باعث ملک کے دیگر حصوں سے کٹا ہوا ہے۔ علاقے میں شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان جھڑپیں وقفے وقفے سے جاری رہیں جس میں متعدد افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو چکے ہیں ۔
حکومت نے جنوری کے آغاز میں ایک گرینڈ جرگے کے ذریعے امن معاہدہ کروانے میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم، یہ امن چند دنوں میں دو مرتبہ ٹوٹ گیا۔ پہلی بار 5 جنوری کو کرم کے ڈپٹی کمشنر پر حملے کیا گیا اور دوسرا واقعہ 16 جنوری کو رونما ہوا جب ایک امدادی قافلے پر گھات لگا کر راکٹوں سے حملہ کیا گیا۔
حالات کو معمول پر لانے کے لیے حکومت مسلسل جرگے منعقد کر رہی ہے اور امید کر رہی ہے کہ ضلع کے امن وامان کے صورتحال کو ایک پائیدار حل کی طرف لے بڑھایا جائے گا۔