محکمہ داخلہ پنجاب کے ذیلی اداروں سے کروڑوں روپے کا اسلحہ اور بارود غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک آڈٹ رپورٹ کے مطابق محکمہ داخلہ پنجاب کے 12 اضلاع سے اسلحہ اور بارود کی چوری، گمشدگی اور عدم دستیابی کے سنگین معاملات سامنے آئے ہیں۔
تفصیلی آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پر 24 کروڑ 55 لاکھ روپے سے زائد مالیت کا سامان غائب ہوا ہے جس کی اب تک وصولی نہیں ہو سکی۔ 2021 سے 2023 کے دوران ڈی پی او مظفر گڑھ کے دفتر سے 8 کروڑ 34 لاکھ روپے سے زیادہ کا اسلحہ و بارود غائب ہوا ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کے دفتر سے 4 کروڑ 71 لاکھ روپے سے زائد مالیت کا اسلحہ اور گولیاں غائب ہوئیں ہیں جبکہ پولیس آفس لاہور سے 4 کروڑ 68 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے غائب شدہ اسلحہ کی ریکوری بھی تاحال ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈی پی او ملتان کے دفتر سے 74 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی رائفلیں اور گولہ بارود غائب ہوا ہے۔ رپورٹ میں 2009 کے دوران سنٹرل جیل لاہور کے مختلف افسروں کو دی گئی رائفلوں کا ریکارڈ بھی دستیاب نہیں ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈی پی او سیالکوٹ کے دفتر سے 56 لاکھ 14 ہزار روپے کا اسلحہ و سامان غائب ہوا ہے۔ جبکہ ڈی پی او ساہیوال کے دفتر سے 43 لاکھ روپے کا سامان غائب ہو گیا ہے۔
آڈٹ میں ڈی پی او اوکاڑہ کے دفتر سے 38 لاکھ روپے سے زائد مالیت کا اسلحہ اور سامان غائب ہونے کا بتایا گیا ہے۔
انکشاف میں ڈی پی او گجرات کے دفتر سے 35 لاکھ روپے کا اسلحہ غائب ہونے کا انکشاف بھی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ڈی پی او فیصل آباد کے دفتر سے 26 لاکھ روپے سے زائد مالیت کا اسلحہ اور گولہ بارود غائب ہوا ہے۔
ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق سیکرٹری داخلہ پنجاب نے اسلحے کی عدم موجودگی کے بارے میں رپورٹس پر انکوائری کا حکم دیا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ انکوائری کمیشن کی سربراہی ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ کو دی ہے جبکہ
ڈائریکٹر جنرل مانیٹرنگ اور ایڈیشنل سیکرٹری جوڈیشل محکمہ داخلہ انکوائری کمیٹی میں شامل ہیں۔
انکوائری ٹیم رپورٹ میں دی گئی بے ضابطگیوں پر بھی جواب جمع کروائیں گے۔ انکوائری کمیٹی دس دن کے اندر انکوائری مکمل کر کے رپورٹ جمع کروائے گی۔
ترجمان داخلہ نے بتایا کہ محکمہ داخلہ پنجاب براہ راست اسلحہ ذخیرہ نہیں کرتا بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہوتا ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ انکوائری رپورٹ موصول ہونے پر ذمہ داران کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔
اس سنگین صورتحال نے محکمہ داخلہ پنجاب کی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔