صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب دہ ش ت گردوں کے حملے میں تین پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔ صوبائی محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی جانب سے جاری کردہ ایک سرکاری بیان کے مطابق دہ ش ت گردوں نے "رات کی تاریکی میں قاضی تالاب چیک پوسٹ پر بزدلانہ حملہ” کیا۔
حملے کا فوری جواب دیتے ہوئے ہنگو کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) خان زیب مہمند نے خود دہ ش ت گردوں کے خلاف آپریشن کی قیادت کی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دشمن کے سامنے ڈٹے رہے اور بالآخر حملے کو ناکام بنا دیا۔
آپریشن کے دوران شہید ہونے والوں میں ہیڈ کانسٹیبل وحید شاہ، ہیڈ کانسٹیبل حکمت خان، اور عبدالصمد شامل ہیں۔
سی ٹی ڈی کے مطابق، پولیس اور دہشت گردوں کے درمیان "شدید لڑائی” دو گھنٹے تک جاری رہی۔
دہشت گرد رات کے اندھیرے اور پتھریلے پہاڑی علاقے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ہلاک اور زخمی ساتھیوں کو لے کر فرار ہو گئے۔
تاہم سرچ آپریشن کے دوران ایک مسلح دہشت گرد کی لاش برآمد کی گئی، جبکہ متعدد دہشت گردوں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا، سہیل آفریدی نے حملے کی شدید مذمت کی اور شہید اہلکاروں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ وزیراعلیٰ آفس سے جاری بیان میں ان کے حوالے سے کہا گیا کہ "دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ بزدلانہ حملے ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔”
انہوں نے فوری طور پر جائے وقوعہ پر اضافی نفری بھیجنے کی ہدایت کی اور کہا کہ دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ انہوں نے زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے اور آئی جی پولیس سے واقعے کی رپورٹ طلب کرنے کا بھی حکم دیا۔
وفاقی وزیر داخلہ، محسن نقوی نے بھی حملے کی مذمت کی اور شہداء کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔ وزارت داخلہ کے ایکس اکاؤنٹ پر ایک بیان میں کہا گیا کہ نقوی نے سوگوار خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کیا اور کہا "شہید اہلکاروں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ یہ قربانیاں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا ثبوت ہیں۔” انہوں نے کے پی پولیس کو اس جنگ میں فرنٹ لائن پر قرار دیا۔
واضح رہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے 2022 میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے بعد سے ملک، خاص طور پر کے پی اور بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ حملہ ہنگو میں تقریباً تین ہفتے بعد ہوا ہے، جہاں 2 نومبر کو ایک پولیس قافلے پر آئی ای ڈی حملہ ہوا تھا جس میں تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ اس سے قبل 24 اکتوبر کو بھی ہنگو میں یکے بعد دیگرے دھماکوں میں ایک ایس پی سمیت تین پولیس اہلکار شہید ہوئے تھے جس کی ذمہ داری بھی ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔