ہائی کورٹ کا گستاخ رسول کے شبہ میں مدرسہ ٹیچر کے قتل کیس میں 2 خواتین کی سزائے موت برقرار

پشاور ہائی کورٹ ڈیرہ اسماعیل خان بنچ نے ایک انتہائی اہم اور ہائی پروفائل قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے دو مجرم خواتین کی سزائے موت کو برقرار رکھا ہے۔ یہ لرزہ خیز واقعہ ڈیرہ اسماعیل خان میں مدرسہ کی ایک استاد کو گستاخ رسول ہونے کے شبہ میں چھریوں کے وار سے بے دردی سے قتل کرنے سے متعلق ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ، جس میں جسٹس محترمہ فرح جمشید اور جسٹس انعام اللہ خان شامل تھے، نے سزائے موت پانے والی 20 سالہ رضیہ حنفیہ اور 25 سالہ عمرا امان حنفیہ کی اپیلیں مسترد کر دیں۔ اسی طرح، کم عمری کے باعث عمر قید کی سزا پانے والی 16 سالہ عائشہ لغمانی کی سزا بھی برقرار رکھی گئی ہے۔

یہ دل دہلا دینے والا واقعہ 29 مارچ 2022 کو ڈیرہ کے علاقے انجم آباد، تھانہ کینٹ کی حدود میں پیش آیا تھا۔ مدرسہ جامعہ اسلامیہ فلاح البنات کی تین طالبات نے صبح سات بجے مدرسہ کے گیٹ پر اپنی استاد، 18 سالہ س بی بی قوم محسود کو روک کر چھریوں کے پے در پے وار کرکے ذبح کر دیا تھا۔ اس اندوہناک واقعے نے پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، ملزم طالبات نے پولیس کو اپنے ابتدائی بیان میں انکشاف کیا تھا کہ مدرسہ کی ایک ساتھی نے خواب سنایا تھا کہ مقتولہ گستاخ رسول ہے اور اس کے قتل پر جنت کی بشارت ملے گی۔ اسی ‘خواب’ کے نتیجے میں طالبات نے یہ سنگین قدم اٹھایا۔ پولیس نے تینوں ملزماؤں کے قبضے سے آلہ قتل، چھریاں اور ایک لاٹھی بھی برآمد کی تھی۔

ایڈیشنل سیشن جج ڈیرہ، محمد جمیل نے 18 مارچ 2024 کو جرم ثابت ہونے پر دو طالبات کو سزائے موت اور بیس بیس لاکھ روپے جرمانہ، جبکہ نابالغ طالبہ کو عمر قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی تھی۔

مقتولہ کے لواحقین کی جانب سے سپریم کورٹ کے معروف وکیل محمد نوید محسود ایڈووکیٹ اور حاجی شکیل ایڈووکیٹ نے عدالت میں پیروی کی ہے۔

ڈیرہ کی تاریخ کے ان لرزہ خیز واقعات میں شمار ہونے والے اس کیس کا پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اب ایک حتمی موڑ پر پہنچنا قانونی اور عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں