کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان خیبر پختونخوا میں عام شہریوں کو نشانہ بنانے لگی

 معلومات کے مطابق تحریک طالبان پاکستان نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو  ۲۰۲۴  کو دو مہینے کا وقت دیا تھا کہ وہ اپنے فرائض سے دستبردار ہو جائیں باصورت دیگر ان کو نشانہ بنایا جا یگا۔ کالعدم تنظیم کے اس بیان کو پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے یکسر رد کیا۔  

 ٹی ٹی پی نے ۱۳دسمبر  کے بعد  اپنے مسلح جتھوں کو ہدایت کی کہ وہ  سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کے علاوہ ان کو اغوا کریں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے گھروں کو بھی لوٹا جائے۔

اس بیان کے بعد خیبر پختونخوا بھر میں شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف نئے حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان حملوں میں بعض مواقع پر بچوں کی ہلاکت بھی ہوئی۔

بیان کے بعد دہشت گردی کا پہلا واقعہ 16 جنوری کو ضلع کرک کے علاقہ بندہ داؤد شاہ میں پولیو ویکسینیشن ٹیم پر حملہ تھا۔ اس حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک پولیو ورکر زخمی ہو گیا۔ ایک دن بعد ڈی آئی خان میں دہشت گردوں نے پولیو ٹیم کے ساتھ جانے والے فوجی قافلے پر حملہ کیا۔ اس حملے میں چار اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے تین بعد میں دم توڑ گئے۔

سال کا سب سے بڑا حملہ اپر جنوبی وزیرستان کی تحصیل مکین میں فوجی چیک پوسٹ پر کیا جس میں 16 فوجی جاں بحق اور آٹھ دیگر زخمی ہوئے جن میں ایک باورچی بھی شامل تھا۔ دیگر فوجی اہداف کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ 26 دسمبر کو شمالی وزیرستان میں ایک قافلہ پر حملہ ہوا جس میں ایک میجر رینک کے فوجی افسر جانبحق ہوئے۔

خیبر پختنخواہ پولیس پر دہشت گرد حملوں کا سلسلہ جاری رہا، لیکن 23 دسمبر کو دہشت گردوں کے حملوں نے نیا رخ اختیار کیا جب جنوبی وزیرستان لویر کے علاقہ داژہ غندہ میں احمد زئی قبیلے کے سردار ملک طارق کو اغوا کیا۔ تاہم طارق کو قبائلی بزرگان کی مداخلت کی بدولت رہا ئی ملی۔ یہ قبیلہ علاقے کے بڑے قبائل میں سے ایک ہے۔

 جنوری ۲۰۲۴میں کالعدم ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں کہا کہ اس کے اہداف صرف سیکیورٹی ایجنسیاں ہیں اور شہریوں سے کہا کہ وہ فوجی کاروباروں سے الگ ہو جائیں، جس میں لوگوں سے کہا گیا کہ وہ فوج سے وابستہ مصنوعات فروخت کرنا بند کر دیں ۔

۳۱ دسمبر ۲۰۲۴کی رات کو دہشت گردوں نے درابن پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس میں ایک پولیس کانسٹیبل اورایک مزدور جانبحق جبکہ دو دیگر زخمی ہوئے۔ اسی دن جنوبی وزیرستان کے اعظم ورسک میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفتر پر بم حملہ کیا گیا جس میں ایک بچہ جانبحق ہوا۔ اسی دن ایک سڑک کنارے نصب بم دھماکہ میں پانچ پولیس اہلکار جان بحق ہوئے۔

سال کے شروعات میں دہشت گردوں نے سیکیورٹی حکام کے گھروں پر حملوں میں تیزی دکھائی ۔

 خیبر پختنخواہ کے جنوبی ضلع لکی مروت میں چند مسلح افراد ایک پولیس اہلکار کے گھر میں داخل ہوئے اور اس کے کمرے کو دھماکے سے اُڑا دیا جبکہ اس کا خاندان  اس حملہ میں محفوظ رہا۔ 16 جنوری کو جنوبی ڈویژن  ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کوٹ لالوں میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکاروں کے گھروں کو نظر آتش کیا گیا خوش قسمتی سے اس وقعہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ اس وقت اہلکار ڈیوٹی پر تھے۔

۳ جنوری ۲۰۲۴ کو ضلع لکی مروت میں ایک چیک پوائنٹ پر وین سے مسافروں کو  اُتارا جن میں تین فوجی اہلکاروں کی شناخت کے بعد ان اہلکاروں کو شدت پسندوں نے اغوا کر لیا۔ اغوا شدہ اہلکاروں کو سمندری پہاڑوں کی طرف لے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ اسی دن ضلع بنوں میں حملہ آوروں نے ایک پولیس اہلکار کو گولی مار کر زخمی کیا جو بعد ازں ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ گیا۔

اسی طرح 23 جنوری کو جنوبی وزیرستان کے علاقے سارا روغہ میں ایک پولیس چوکی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور چار پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا۔ دہشت گردوں نے اس کے ساتھ ہی فرنٹیئر کانسٹیبلری کی چوکی پر بھی حملہ کیا اور اسلحہ اور گولہ بارود لے کر فرار ہو گئے۔

شدت پسندوں نے 6 جنوری کو خیبرپختونخوا میں ایک فٹ بال میچ کے دوران ایک راکٹ فائر کیا جس سے تین کھلاڑی زخمی ہو گئے۔

ان حملوں میں سیکیورٹی سے لاتعلق حکومتی تنصیبات بھی نشانہ بنیں۔ گزشتہ دو مہینوں کے واقعات میں سے ایک میں 16 غریب مزدوروں کو ایک حکومتی عمارت میں کام کرتے ہوئے اغوا کر لیا گیا۔ ٹی ٹی پی نے بعد میں ایک ویڈیو جاری کی جس میں مزدوروں میں سے آٹھ کو جلد بازیاب کر لیا گیا تھا۔

تحریک طالبان کا یہ دعوای کہ وہ صرف سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔ اپنے اعلانیے کے بعد ٹی ٹی پی نے خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں 30 سے زائد حملے کیے جن میں سے کئی حملوں میں براہ راست شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ سیکیورٹی فورسز کے حوالے سے بھی ٹی ٹی پی صرف ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں تک محدود نہیں رہی بلکہ اہلکاروں کے گھروں کو بھی تباہ کیا۔ معصوم شہریوں کو میچ کھیلتے ہوئے نشانہ بنانا اور بچوں کو بم دھماکے میں مارنا ٹی ٹی پی کے ناپاک ارادوں کو مسلسل واضح کر رہے ہیں ۔ سیکیورٹی حکام کو چاہیے کہ ایسے عناصر کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کریں۔  

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں