اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں نمایاں بہتری کے اشارے ملے ہیں کیونکہ افغان عبوری حکومت کی جانب سے پاکستان کو نشانہ بنانے والے گروہوں کے خلاف کارروائی کے اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ اس کارروائی میں سرحد پار دہشت گردی میں ملوث افغان شہریوں کی گرفتاری بھی شامل ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان روابط میں اضافہ ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے ایکسپریس ٹریبیون کی ایک خبر کے مطابق تعلقات میں بہتری کا ایک اہم عنصر افغان طالبان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان سرزمین سے سرگرم دیگر عسکریت پسند گروہوں کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کی بظاہر آمادگی تھی۔ یہ پیش رفت مارچ میں خصوصی نمائندے محمد صادق کی قیادت میں ایک پاکستانی وفد کے دورے کے بعد ہوئی، جہاں طالبان نے انہیں سرحد پار حملوں کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں بریفنگ دی ہے۔ ٹی ٹی پی سے منسلک متعدد افغانوں کی گرفتاری اور خیبر پختونخوا میں خودکش حملوں میں کمی نے اس مثبت رجحان کو مزید تقویت بخشی ہے۔
مزید پیش رفت اپریل میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کے کابل کے دورے سے ہوئی ہے۔ یہ دورہ تین سالوں میں کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ تھا۔ اس کے نتیجے میں معاہدے طے پائے جن میں کابل کی جانب سے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا عہد اور پاکستان کی جانب سے افغان تجارت کے حوالے سے باہمی رعایتیں شامل تھیں۔ افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کی سرحد کے قریب 70 سے زائد دہشت گردوں کی دراندازی میں سہولت فراہم کرنے والے افراد کی گرفتاری نے اعتماد کو مزید بڑھایا ہے۔
بہتر تعلقات کا نتیجہ 21 مئی کو بیجنگ میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی میزبانی میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس پر ہوا، جہاں پاکستان اور افغانستان نے سفیروں کے تبادلے پر اصولی طور پر اتفاق کیا گیا جو سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔