تقریباً 15 سال بعد پاکستان 11ویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے ذریعے آمدنی کی تقسیم کے فریم ورک پر نظر ثانی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس عمل کی پہلی میٹنگ 29 اگست 2025 کو ہونے والی ہے۔
فی الحال قابل تقسیم ٹیکس پول کا 57.5 فیصد صوبوں کو جاتا ہے جبکہ باقی 42.5 فیصد وفاقی حکومت کے پاس رہتا ہے۔ تاہم، چھوٹے صوبوں کی جانب سے نئے فارمولے کے مطالبات امیدوں اور خدشات دونوں کو بڑھا رہے ہیں۔
صوبے نیا فارمولا کیوں چاہتے ہیں؟
سب سے زیادہ آواز خیبر پختونخوا کی ہے۔ اس صوبے کے وزیر خزانہ، مزمل اسلم نے موجودہ وزن/فارمولے پر کھلی تنقید کی ہے جو کہ 82 فیصد آبادی اور صرف 10.6 فیصد پسماندگی پر مبنی ہے۔ پشاور میں ایف پی پی سی آئی کے حالیہ اجلاس میں انہوں نے کہا کہ ”آبادی اور پسماندگی کو متوازن کرنا چاہیے۔ خیبر پختونخوا نئے معیارات جیسے کہ قدرتی وسائل اور جنگلات کا مطالبہ کرے گا۔”
یہ تجویز وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے خیالات سے مطابقت رکھتی ہے جو آبادی کو ایک غالب عنصر کے طور پر کم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، ابھی تک کسی بڑی سیاسی جماعت نے باضابطہ طور پر اس کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔
ماہرینِ معاشیات نئے ایوارڈ کے آنے سے صوبوں کے لیے مالی خودمختاری میں اضافہ دیکھ رہے ہیں جو صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے علاقے، جنہیں نظر انداز سمجھا جاتا ہے، شاید سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
معاشی ماہر پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالدین نے "خبرکدہ” کو بتایا: "این ایف سی کی از سر نو تشکیل مثبت ہے لیکن اصلاحات زمینی حقائق کے مطابق ہونی چاہیے۔ چھوٹے صوبوں کو غربت، بے روزگاری اور صنعت کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ایوارڈ کو غربت کے خاتمے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور یہاں تک کہ دہشت گردی کے مسائل پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں۔”
وفاقی حکومت کے خدشات
ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبوں کے حصے میں اضافہ وفاقی حکومت کی مالی آزادی کو مزید کم کر دے گا۔ وفاقی حکومت پہلے ہی قرضوں کی ادائیگی، دفاعی اخراجات اور سبسڈی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ اگر ٹیکس کی وصولی بہتر نہیں ہوتی تو پاکستان کا مالی خسارہ مزید بڑھ جائے گا۔
صحافی فدا حسین ایک اور نقطہ نظر پیش کرتے ہیں” 18ویں ترمیم کے بعد، زیادہ تر ادارے دفاع اور سلامتی کے علاوہ صوبوں کے دائرہ اختیار میں آ گئے ہیں۔ اب یہ صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ این ایف سی میں اپنے جائز مطالبات پیش کریں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر پانچ سال بعد مالی ضروریات بڑھ جاتی ہیں، اور وفاقی حکومت کے اب بھی بڑے وعدے ہیں۔”
بڑے چیلنجز کا سامنا
این ایف سی کا عمل کبھی بھی آسان نہیں رہا، اور اس بار بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔ ان کے اہم چیلنجز میں ایک کم ٹیکس بیس کا مسئلہ جو پاکستان کی ٹیکس آمدنی GDP کا صرف 9-10 فیصد ہے۔
دوسرا ہاریزونٹل ڈسپریٹیز جس میں سندھ آمدنی کی وصولی پر زیادہ حصہ کا مطالبہ کرتا ہے، جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان غربت اور سیکیورٹی اخراجات کی بنیاد پر اضافہ چاہتے ہیں۔
تیسرا آئی ایم ایف کی نگرانی ہے جہاں اگر آمدنی کے نئے ذرائع پیدا نہیں کیے جاتے تو بڑھتے ہوئے وفاقی خسارے کی وجہ سے آئی ایم ایف کا دباؤ سخت ہو جائے گا۔
آخر میں سیاسی سودے بازی ہے جو ماضی کی طرح اس این ایف سی مذاکرات سالوں تک تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں جس سے معاہدے تک نہ پہنچنے کا خطرہ زیادہ ہے۔
بڑا سوال
کیا آبادی اب بھی آمدنی کی تقسیم کا غالب عنصر رہے گی – یا غربت، دولت اور ماحولیاتی پائیداری بھی جگہ پائیں گی؟ 11 ویں این ایف سی ایوارڈ کے نتائج یا تو مالی وفاقیت کے نظام کو مضبوط کر سکتے ہیں، یا نئے سیاسی اور اقتصادی دراڑیں پیدا کر سکتے ہیں۔