پاک-افغان تعلقات میں شدید تناؤ: پاکستان نے افغانستان کے اندر حملے کیے، افغان ترجمان کا دعوی

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں ایک نیا بحران اس وقت پیدا ہو گیا جب افغان طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو دعویٰ کیا کہ پاکستان نے رات گئے افغانستان کے اندر فضائی حملے کیے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر جاری اپنے بیان میں مجاہد نے کہا کہ پاکستان نے صوبے خوست  پر "بمباری” کی اور کنڑ اور پکتیکا صوبوں میں بھی حملے کیے ہیں جس میں دس افراد کے جاںبحق ہونے کا دعوی کیا ہے۔ تاہم، تاحال پاکستان کی جانب سے کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ مبینہ حملے اسی دن رپورٹ ہوئے جب پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری (ایف سی) ہیڈ کوارٹرز پر ایک خونریز خودکش حملہ ہوا جس میں تین اہلکار شہید ہوئے اور متعدد جوان زخمی ہوئیں ہیں۔

دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں تناؤ کی بنیادی وجہ تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی ہے۔ پاکستان مسلسل یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ کابل حکومت سرحد پار دہشت گردی روکنے کے لیے کارروائی کرے لیکن افغان طالبان ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کو ان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔

اکتوبر کی سرحدی جھڑپوں کے بعد ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں دیرپا امن کے طریقہ کار پر کام کرنے کے لیے مذاکرات کا عمل شروع ہوا تھا۔ تاہم، اختلافات کم نہ ہو سکے اور نومبر 7 کو تیسرے دور کے مذاکرات کے بعد، وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعلان کیا کہ سرحد پار دہشت گردی سے متعلق بات چیت "ختم ہو چکی ہے” اور ایک غیر معینہ مدت کے لیے تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد، افغان طالبان نے اسلام آباد کے ساتھ تجارتی تعلقات معطل کر دیے جبکہ پاکستان اکتوبر کی جھڑپوں کے بعد پہلے ہی سرحد بند کر چکا تھا۔

اب ترکیہ نے کشیدگی کم کرنے کے لیے اپنے اعلیٰ عہدیداروں کے پاکستان کے دورے کا اعلان کیا ہے جس کا پاکستان نے خیرمقدم کیا ہے۔ تاہم، پاکستان کی وزارت خارجہ (ایف او) نے واضح کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارت کی بحالی کا انحصار طالبان حکومت کے سرحد پار دہشت گردی کو ختم کرنے پر ہے، اور اہم علاقائی توانائی منصوبوں کا مستقبل بھی دہشت گرد گروہوں کی حمایت روکنے سے مشروط کیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں