خبر کدہ ایکسکلوسیو :پاکستان کا ہمدردانہ کردار، افغان مہاجرین کی بلوچستان سے واپسی


پاکستان نے ہمیشہ ایک ہمدرد برادر ملک کے طور پر اپنا نمایاں کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر افغان مہاجرین کے حوالے سے۔ 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد لاکھوں افغانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ پاکستان نے کھلے دل سے ان مہاجرین کا استقبال کیا اور انہیں نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کے لیے روزگار کے مواقع اور بنیادی سہولیات بھی فراہم کیں۔ قندھار سے بدخشان تک، افغانستان کے ہر علاقے سے آنے والے مہاجرین کو پاکستان نے اپنی سرزمین پر جگہ دی اور ان کے ساتھ ہمدردی اور بھائی چارے کا سلوک کیا ہے۔ یہ اقدام پاکستان کی انسانی ہمدردی اور پڑوسی ملک کے ساتھ گہرے تعلقات کی ایک واضح مثال ہے۔


اس دوران پاکستان نے افغان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے اور انہیں معاشرے میں شامل کرنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے۔ مہاجرین کے کیمپوں سے لے کر شہری علاقوں تک، انہیں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے۔ پاکستانی معاشرے نے افغانوں کو اپنے طور پر اپنایا اور انہیں ایک نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دیا۔ پاکستانی حکومت نے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر مہاجرین کے لیے امدادی پروگرامز شروع کیے، جن میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) کا اہم کردار رہا۔ اس کے علاوہ، پاکستانی عوام نے بھی اپنی روایتی مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانوں کو اپنے گھروں اور دلوں میں جگہ دی۔


2021 کے بعد جب امریکا کے انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو اسی وقت سے پاکستان نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اب افغانستان کے لوگ اپنے ملک واپس چلے جائیں۔ 2021 سے پالیسی بننا شروع ہوئی۔ اب تک چار سالوں کے دوران پاکستان نے مرحلہ وار افغان خاندانوں کو عزت کے ساتھ واپس بھیجنے کی پالیسی مرتب کی ہے اور وہ مرحلہ وار واپس جا رہے ہیں۔ دو صوبوں کے پی کے (خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں سب سے زیادہ افغان رہائش پذیر تھے۔ بلوچستان سے بڑے پیمانے پر افغانوں کا انخلا جاری ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان سے اب تک 85,000 افغان مہاجرین حالیہ ہفتوں میں واپس بھیجے گئے ہیں، جبکہ 2023 سے اب تک مجموعی طور پر تقریباً 165,000 مہاجرین واپس جا چکے ہیں۔ یہ واپسیاں پاکستان کے "غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے” کا حصہ ہیں۔ کوئٹہ، پشین، لورالائی، چاغی، اور قلعہ سیف اللہ میں 10 مہاجر کیمپ بند کر دیے گئے ہیں۔ 20 اکتوبر 2025 کو کوئٹہ میں ایک دن میں 3,888 غیر قانونی افغان مہاجرین کو گرفتار کیا گیا، جنہیں فوری واپسی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں تقریباً 241,584 رجسٹرڈ مہاجرین PoR کارڈ ہولڈرز تھے، جن کے کارڈز کی میعاد جون 2025 تک تھی جو کہ ختم ہوچکی ہے۔ اسی طرح اندازاً 100,000 سے 150,000 غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین اب بھی موجود ہیں، خاص طور پر کوئٹہ کے نواحی علاقوں مشرقی بائی پاس، سیٹلائٹ ٹاؤن، نواکلی، پشتون آباد، مستونگ، خضدار، حب چوکی، نوشکی و دیگر اضلاع میں۔


2023 سے 2025 تک غیر رجسٹرڈ اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی واپسی جاری تھی۔ اپریل 2025 سے رجسٹرڈ PoR ہولڈرز کی واپسی شروع ہوچکی ہے، جو اب تیزی سے جاری ہے۔ ان تمام افغان مہاجرین کی چمن اور ویش-چمن بارڈر سے واپسی ہو رہی ہے۔ UNHCR کی جانب سے محدود امداد 150 ڈالر فی شخص دی جا رہی ہے۔ یہ تمام تر انخلا رضاکارانہ اور عزت و احترام کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز، ایف سی، لیویز، پولیس کوئٹہ اور سرحدی علاقوں میں چھان بین کر رہی ہیں۔ واپسی کا عمل مزید تیز تر کردیا گیا ہے۔ اب حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جعلی شناختی کارڈز کی بھی چھان بین کی جائے گی۔ جنہوں نے جعلی پاکستان کا شناختی کارڈ بنایا ہے ان کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ مزید جو مہاجرین رہ گئے ہیں وہ بھی آئندہ چند دنوں میں اپنے وطن افغانستان جائیں گے۔ افغان مہاجرین کی واپسی سے کوئٹہ میں پراپرٹی کی قیمتیں کافی حد تک گر گئی ہیں کیونکہ مہاجرین نے سستے داموں گھر اور دکانیں بیچ دیں۔


اس بابت وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی صوبے میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کیونکہ دہشت گردی میں افغان عناصر کی مبینہ شمولیت رپورٹ ہوئی۔ چند ہفتے قبل ایف سی ہیڈ کوارٹر کوئٹہ پر جو خودکش حملہ ہوا تھا اس میں بھی ایک افغان کی نشاندہی ہوئی تھی۔


وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں کہا ہے کہ "پاکستان اب کابل کے ساتھ ماضی کی طرح تعلقات برقرار نہیں رکھ سکتا۔ پاکستانی سرزمین پر رہنے والے تمام افغان اپنے وطن واپس جائیں؛ ان کے پاس اب کابل میں اپنی حکومت ہے، اور ان کی اسلامی انقلاب کے پانچ سال گزر چکے ہیں۔ اب وہ پاکستان کے پڑوسی کی حیثیت سے رہیں۔ ہماری زمین اور وسائل 25 کروڑ پاکستانیوں کے ہیں۔ پانچ دہائیوں کی مجبوری کی مہمان نوازی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔”


کمشنر کوئٹہ جہانزیب کاکڑ کا اس متعلق کہنا ہے کہ مہاجرین کی واپسی کو منظم، مرحلہ وار اور رضاکارانہ بنیادوں پر کیا جا رہا ہے، ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ جب ہماری قومی پالیسی بن چکی ہے تو اب افغان بھائی واپس چلے جائیں اور مرحلہ اس حد تک نہ پہنچے کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔


بلوچستان کے مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کا موقف یہ ہے کہ واپسی کا عمل عزت اور رضاکارانہ بنیادوں پر ہو رہا ہے، جیسا کہ کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر مہراللہ بادینی کی زیر صدارت منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں طے پایا گیا، جہاں مہاجرین کی واپسی کی حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا اور اسے مزید منظم بنانے پر زور دیا گیا۔ بلوچستان کے دیگر ڈپٹی کمشنرز، جیسے چمن اور کوئٹہ خضدار نوشکی نے بھی واپسی کو امن و سلامتی کے لیے ضروری قرار دیا ہے، لیکن اسے انسانی حقوق کے مطابق رکھنے کی ہدایت کی ہے، جس میں بوڑھوں، خواتین اور بچوں کو خصوصی رعایت دی جائے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں