سمی دین بلوچ سمیت 4 افراد کو ایم پی او کے تحت 30 دن جیل بھیج دیاگیا

| شائع شدہ |16:38

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما سمی دین بلوچ سمیت چار افراد کو عوامی نظم و ضبط کے تحفظ (ایم پی او) کے تحت 30 دنوں کے لیے حراست میں لے لیا گیا ہے۔ 

 پیر کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں بشمول ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کی گرفتاری اور کوئٹہ میں دھرنے پر کریک ڈاؤن کے خلاف سمی دین بلوچ کراچی میں احتجاج ریکارڈ کرا رہی تھی کہ اس دوران یہ گرفتاریاں سامنے آئی۔ 

پولیس نے سمی دین اور دیگر کو سیکشن 144 کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا۔  سندھ حکومت کے محکمہ داخلہ نے ایک آرڈر جاری کیا جس میں کہا گیا کہ حراست میں لیے گئے افراد عوامی امن و امان کو خراب کرنے اور سلامتی کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ 

آرڈر میں کہا گیا کہ سندھ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس نے 30 دن کی حراست کی سفارش کی تھی۔ پانچوں افراد کو سنٹرل جیل کراچی میں رکھا گیا ہے۔ ایم پی او کے تحت بک کیے گئے دیگر احتجاجیوں میں رزاق علی، عبدالوہاب بلوچ، شہزاد رب اور سلطان ہمال شامل ہیں۔ 

آرڈر میں کہا گیا کہ گرفتار شدہ کارکنان ‘عوامی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ’ بن سکتے ہیں اور ‘امن و سکون کو خراب کر سکتے ہیں’۔ 

ایک پولیس اہلکار کی شکایت پر درج ایف آئی آر  میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں ابتدائی احتجاج جو فوارہ چوک پر ریکارڈ کیا گیا بعد میں ریڈ زون میں داخلے کی کوشش کی گئی جس کے بعد پولیس نے مداخلت کی  دی گئی ہے۔ سیکشن 144 پہلے ہی نافذ کی جا چکی تھی، جس کی وجہ سے سڑکیں بند ہو گئی تھیں اور ٹریفک میں شدید رکاوٹیں پیدا ہوئی تھیں۔ 

خبر رساں ادارے ڈان نیوز کے مطابق  بلوچستان یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے ردعمل میں مدمقابل احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے جن میں شرکاء نے بی وائی سی اور کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی کی مذمت کی۔ یہ مدمقابل احتجاجی مظاہرے سیکشن 144 کے باوجود منعقد ہوئے اور اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کوئی قانونی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔ کراچی پریس کلب کے قریب بی وائی سی کے مدمقابل احتجاج میں بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بی ایل اے کو بھارتی خفیہ ایجنسی را سے منسلک کیا گیا۔ زینب مارکیٹ کے قریب ایک اور مظاہرے میں ان دو گروپوں کو ‘ایک ہی سکے کے دو رخ’ بتایا گیا۔ تیسرے مظاہرے میں مسلح افواج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں