پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کی منتقلی کے حوالے سے پالیسی اسی طرح جب تک کہ اس میں کوئی باضابطہ تبدیلی نہ کی جائےجاری رہے گی۔ جب تک کہ اس میں کوئی باضابطہ تبدیلی نہ کی جائے۔
جمعرات کے روز پریس بریفنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کو تیسرے ممالک میں بھیجنے کا عمل تاخیر کا شکار ہےاور اس منتقلی کے طریقہ کار میں ابھی تک کوئی باضابطہ تبدیلی نہیں کی گئی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ افغان پناہ گزین جتنی جلدی ممکن ہو، تیسرے ممالک میں آباد ہو جائیں۔ یہ ردعمل اس وقت آیا جب امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی پناہ گزین پروگرام کو معطل کرنے کا کہا۔بیان میں امریکی صدر نے کہا کہ 1,600 سے زائد افغان پناہ گزینوں کے امریکہ میں آباد ہونے کے لیے طے شدہ پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
وزات خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کے مشن کے سربراہ، عبید الرحمن نظامانی کو ابھی تک سفیر کا درجہ نہیں دیا گیا اور جن ممالک نے افغانستان میں سفیر بھیجے انہوں نے طالبان حکومت کو مکمل طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ لکین پاکستان اپنے فیصلے میں بین الاقوامی منظر نامے اور دیگر ممالک کے موقف کو مدنظر رکھے گا۔
شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان افغانستان پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے پناہ گاہوں کے مسئلے کا حل نکالے۔ جو افغا نستان کی ذمہ داری بنتی ہے اور اس کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔
ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اپنی سرحدوں کی بھرپور حفاظت کر رہی ہیں اور دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے مسئلے کو کثیر الجہتی فورمز پر اٹھایا جائے گا۔
امریکہ 2021 میں واپسی کے دوران چھوڑے گئے ہتھیاروں پر حالیہ تبادلہ خیال کے سوال پر ترجمان نے کہا کہ افغان حکام کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ یہ ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ ایک خطاب میں کہا تھا کہ وہ افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیار واپس لے آئیں گے جبکہ ایک خبر کے مطابق طالبان نے ہتھیار واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے بلکہ مزید ہتھیاروں کی درخواست کی تاکہ وہ داعش خراسان کے خلاف لڑ سکیں۔