بغیر انسپکشن بُلٹ پروف گاڑیوں کی واپسی : خیبر پختونخوا میں نیا تنازع !

وفاق کی طرف سے دی جانے والی بُلٹ پروف گاڑیوں کو وزیراعلی خیبر پختونخوا کی جانب سے بغیر کسی تکنیکی جانچ پر مبنی رپورٹ کے ناقابل استعمال قرار دینے اور ان کو واپس کرنے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔

خبر کدہ کے ذرائع کے مطابق گاڑیوں کی انسپکشن کرنے والی تکنیکی کمیٹی نے بُلٹ پروف گاڑیوں کے حوالے سے تاحال اپنی رپورٹ تیار نہیں کی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی اعتراض کمیٹی کی جانب سے سامنے آیا ہے مگر اسکے باوجود وزیراعلی خیبر پختونوا سہیل آفریدی کو یہ باور کروایا گیا کہ یہ بُلٹ پروف گاڑیاں ناقابل استعال ہیں۔ وزیراعلی کو گاڑیوں کے معامل پر مس گائیڈ کیے جانے کے حوالے سے اب دو پولیس افسران پر شک کیا جا رہا ہے۔

وفاق کی جانب سے خیبرپختونخوا حکومت کو دی جانے والی یو این کی عطیہ کردہ بلٹ پروف گاڑیوں کو وزیر اعلی سہیل آفریدی کی جانب سے انسپکشن رپورٹ کے بغیر ناقص قرار دینے پر ملکی سطح پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ گاڑیوں کی تکنیکی کمیٹی نے تاحال انسپکشن رپورٹ تیار نہیں کی تھی، جس کے باوجود وزیر اعلیٰ کو یہ باور کرایا گیا کہ گاڑیاں ناقص ہیں، اب اس معاملے میں دو سینئر پولیس افسران پر شک کی سوئی جا پہنچی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی جی پولیس خیبرپختونخوا ذوالفقار حمید نے وزارتِ داخلہ سے بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کرنے کی درخواست کی تھی، جس پر انہیں بتایا گیا کہ تین گاڑیاں یو این کی جانب سے عطیہ کی گئی ہیں اور ان کی بلٹ پروفنگ جاپان میں ہوئی ہے، جب کہ دو گاڑیاں ایف سی کو دی جائیں گی۔ تاہم آزاد ذرائع سے یہ واضح نہیں کہ وزیر اعلیٰ کو غلط اطلاع کس نے دی جس کے بعد انہوں نے ان گاڑیوں کو ناقص قرار دے کر واپس کرنے کا فیصلہ کیا۔

خبرکدہ کی جانب سے گاڑیوں کی واپسی کے معاملے پر کی جانے والی خصوصی تحقیق کے بعد یہ اہم انکشاف سامنے آیا ہے کہ اس سارے عمل میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مذکورہ عہدیدار نے ان گاڑیوں میں موجود تکنیکی خامیوں کی باضابطہ نشاندہی کی تھی، جس کے بعد حکام کو مذکورہ گاڑیاں واپس لینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

تاہم مذکورہ پولیس افسر کی یہ نشاندہی تکنیکی کمیٹی کی رپورٹ سے قبل ہی کی گئی اور اسی نشاندہی کے بنیاد پر وزیراعلی سہیل آفریدی نے بُلٹ پروف گاڑیوں کو واپس کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

 پولیس کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران 105 گاڑیاں — جیپ، ڈبل اور سنگل کیبن گاڑیاں اور اے پی سیز  مختلف اضلاع میں تقسیم کی گئیں، جبکہ 11 بلٹ پروف گاڑیاں ناقابلِ استعمال ہو چکی ہیں۔

محکمہ ایڈمنسٹریشن بھی درکار سرکاری پروٹوکول گاڑیوں سے محروم ہے۔ 2010 میں امریکہ نے صوبائی حکومت کو بی-6 لیول کی چار لینڈ کروزر گاڑیاں عطیہ کی تھیں جن میں سے اب صرف چیف سیکریٹری کے زیرِ استعمال گاڑی فعال ہے جبکہ باقی تین  جن میں ایک وزیر اعلیٰ کے پاس بھی ہے جو خراب ہو چکی ہیں اور ان کی مرمت پر بھاری لاگت درکار ہے۔

اسی طرح 2011 میں بلٹ پروف کی جانے والی 11 لینڈ روور جیپس میں سے 7 ناقابلِ استعمال ہو چکی ہیں جب کہ باقی 4 گاڑیاں ملاکنڈ، کوہاٹ، مردان اور پشاور کے کمشنرز کے پاس ہیں۔ 2010 میں خریدی گئی ٹویوٹا کرولا الٹس گاڑیوں میں سے ایک ناقابلِ استعمال ہے جبکہ باقی پانچ اب بھی مختلف سرکاری افسران اور اداروں کے زیرِ استعمال ہیں۔

دو جون 2014 کو صوبائی حکومت نے ٹویوٹا فرنٹیئر موٹرز پشاور سے چار وی-8 بلٹ پروف گاڑیاں 14 کروڑ 50 لاکھ روپے میں خریدنے کا معاہدہ کیا۔ کمپنی نے 80 دن میں فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی، تاہم تکنیکی خرابیوں کے باعث حکومت نے گاڑیاں وصول نہیں کیں اور معاملہ عدالت جا پہنچا ہے۔

دس سال بعد اگست 2024 میں بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی کی سربراہی میں 9 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے سفارش کی کہ ان گاڑیوں کے پرانے بلٹ پروف شیشے اور ٹائر تبدیل کیے جائیں۔ کابینہ نے یہ فیصلہ منظور کیا، مگر گاڑیوں کی بنیادی خرابیاں بدستور موجود ہیں۔

ڈیلیگیشن آف فنانشل پاور رولز 2018 کے مطابق کوئی بھی سرکاری گاڑی 12 سال استعمال یا 3 لاکھ 15 ہزار کلومیٹر چلنے کے بعد ایکسپائرڈ سمجھی جاتی ہے جس کے مطابق یہ گاڑیاں ڈیڑھ سال بعد ناقابلِ استعمال ہو جائیں گی۔

2021 میں صوبائی حکومت نے وزیرِ اعلیٰ کے لیے ایف بی آر نیلامی سے 10 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک بی ایم ڈبلیو بلٹ پروف گاڑی خریدی، جو تاحال استعمال میں ہے۔ قانون کے مطابق اعلیٰ عہدے داروں اور غیر ملکی وفود کو پروٹوکول گاڑیاں فراہم کرنا محکمہ ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہے تاہم اس وقت محکمہ کے پاس لازمی 75 میں سے صرف 10 گاڑیاں ہی قابلِ استعمال ہیں۔

ذرائع کے مطابق متعدد بلٹ پروف گاڑیاں قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزراء، مشیروں اور معاونینِ خصوصی کو دی گئی ہیں، حالانکہ انہیں 1800 سی سی تک کی گاڑیاں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح ایک بلٹ پروف گاڑی رکنِ صوبائی اسمبلی انور خان کے پاس ہے، جو قواعد کے منافی ہے۔

ضم شدہ اضلاع اور جنوبی خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی کی نازک صورتحال کے باوجود وہاں کی انتظامیہ کو بلٹ پروف گاڑیاں فراہم نہیں کی گئیں حالانکہ ماضی میں سوات اور ملاکنڈ کے حکام کو دھمکیوں کے بعد خصوصی طور پر گاڑیاں دی گئی تھیں۔

پولیس کے مطابق مالی سال 2024-25 میں 75 نئی بلٹ پروف گاڑیاں سینئر پولیس افسران سمیت ریجنل و ضلعی افسران کے حوالے کی جا چکی ہیں جبکہ دہشت گردی کے خطرات کے پیشِ نظر جدید سازوسامان اور ایمونیشن کی فراہمی بھی جاری ہے۔

وفاق کی جانب سے دی گئی پانچ بلٹ پروف گاڑیوں میں سے تین پولیس اور دو ایف سی کے لیے مخصوص تھیں تاہم وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کے مطابق یہ گاڑیاں "پرانے ماڈل” اور "ناقابلِ استعمال” ہیں، جن سے پولیس کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں  مگر تاحال اس کی تصدیق کسی تکنیکی رپورٹ سے نہیں ہو سکی۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں