تحریک طالبان پاکستان کے وہ رہنما جن کا خاتمہ افغانستان میں ہوا

| شائع شدہ |14:29

پاکستانی حکام نے بارہا الزام لگایا ہے کہ دہشت گرد سرحد پار حملوں کے لیے افغان سرزمین کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ 30 جنوری 2025 کو ایک پریس بریفنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ افغان سرزمین سے پاکستان پر حملوں کو روکنے کی ذمہ داری افغان عبوری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان کے خیال  اس معاملے کی میں بنیادی ذمہ داری کابل حکومت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کابل نے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ دہشت گردوں کو پناہ گاہ میسر نہ ہو ۔

جواب میں افغان حکام نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو اپنے علاقے میں ‘قابو کی کمی، نااہلی اور مسائل’ کے لیے طالبان حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔

تاہم افغان حکومت کے دعووں کی تردید اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ پچھلے چند سالوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درجنوں اعلیٰ قائدین افغانستان میں ہلاک ہوئے ہیں۔

ایسا ایک واقعہ عمر منصور کی موت تھی جو جولائی 2016 میں افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوا تھا۔ منصور کو عام طور پر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول قتل عام کا منصوہ ساز سمجھا جاتا تھا جس میں 140 سے زائد اسکول کے بچے جاں بحق ہوئے تھے۔ یہ حملہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف ردعمل کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا تھا۔

منصور ٹی ٹی پی کا درہ آدم خیل اور پشاور کا کمانڈر تھا اور ہلاکت کے وقت اس کی عمر 39 سال تھی۔ وہ اے پی ایس کے واقعہ کے علاوہ وہ کئی دیگر دہشت گردانہ حملوں میںبھی ملوث تھا- منصور نے 2016 میں چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ کیا تھا جس میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

منصور کو ٹی ٹی پی میں ایک سخت گیر رہنما کے طور پر جانا جاتا تھا اور وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کی مذاکرات کے سخت خلاف تھا۔ ٹی ٹی پی کے ایک اور رہنما قاری سیف اللہ کے ساتھ ڈرون حملے  میں اس کی ہلاکت ہوئی تھی جس کو بعد امریکی فوج نے خود رپورٹ کیا تھا۔ ٹی ٹی پی نے اس کی موت کی تصدیق ایک سال بعد اکتوبر 2017 میں کی جب اس کا جانشین مقرر کیا گیا۔

اے پی ایس حملے میں ملوث ہونے اور انتہائی مطلوب دہشتگرد ہونے کے باوجود عمر منصور کو افغانستان میں ہلاک ہونے والا سب سے بڑا طالبان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ اعزاز ملا فضل اللہ کے پاس ہے۔

جون 2018 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ہلاک ہو گیا۔ موت کے وقت فضل اللہ ٹی ٹی پی کا امیر تھا اور اس کی عمر 44 سال تھی۔

فضل اللہ ٹی ٹی پی کا مجموعی طور پر تیسرا امیر تھا لیکن وہ پہلا امیر تھا جسکا تعلق محسود قبیلے سے نہیں تھا۔ اس نے نومبر 2013 میں حکیم اللہ محسود کی جگہ لی تھی اور اسے ایک قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب کیا گیا تھا۔ اس دوران تنظیم کے اندر قیادت کے تنازعے سنگین نوعیت اختیار کر چکے تھے۔

سوات میں فضل حیات کے نام سے پیدا ہونے والا فضل اللہ ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھالنے سے پہلے بھی متعدد حملوں میں ملوث رہا تھا۔ وہ ابتدائی طور پر تحریک نفاذ شریعت محمدی سے منسلک تھا اور اس گروپ کے بانی صوفی محمد کی بیٹی سے شادی کر چکا تھا۔ اسے ‘ملا ریڈیو’ کا لقب ملا کیونکہ وہ ایک غیر قانونی براڈکاسٹر سے حکومت کے خلاف ریڈیو نشریات چلاتا تھا۔

فضل اللہ نے سوات کے درجنوں گاؤں میں ایک متوازی حکومت قائم کی جس میں اس نے خود ساختہ ‘شریعت’ کا نافذ کیا اور یہاں تک کہ خواتین کو سر عام کوڑے مارے گئے۔ اس کا گروپ بالآخر 2007 میں ٹی ٹی پی میں ضم ہو گیا۔ جن حملوں میں وہ ملوث رہے ان میں 2021 میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ اور 2013 میں لیفٹیننٹ جنرل ثناء اللہ خان نیازی پر بم دھماکہ شامل ہیں جس میں جنرل شہید ہوئے تھے۔

اگرچہ پہلے ملٹری آپریشن میں وہ پاکستان سے بھاگ نکلا تھا، فضل اللہ حکیم اللہ کی موت کے بعد پاکستان آیا اور ٹی ٹی پی کا سربراہ بن گیا۔ تاہم اس کی کارروائیوں کا مرکز افغانستان میں ہی رہا۔ ٹی ٹی پی کے سربراہ کے طور پر فضل اللہ پاکستان کو سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد تھا جس کی ہلاکت افغانستان میں ہوئی۔

افغانستان سے 2021 میں امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد بھی ٹی ٹی پی کے بڑے رہنما افغانستان میں ہلاک ہوتے رہے۔

ٹی ٹی پی کی ذیلی جماعت، جماعت الاحرار، کے رہنما عمر خالد خراسانی اگست 2022 میں افغان صوبہ پکتیکا میں ایک آئی ای ڈی دھماکے میں ہلاک ہو گیا۔

خراسانی کا اصل نام عبدالولی تھا ۔ اس کی موت القائدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی موت کے چند دن بعد ہوئی جس سے خراسانی کا قریب تعلق رہا تھا۔

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق خراسانی ایک ‘شاعر اور سابق صحافی’ تھا جو کراچی کے کئی مذہبی مدارس میں پڑھ چکا تھا۔ محکمہ انصاف نے خراسانی کے بارے میں معلومات کے لیے 3 ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔

جماعت الاحرار نے 2014 میں ٹی ٹی پی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جب فظل اللہ گروپ کے سربراہ بن گئے تھے۔ تاہم، خراسانی نے 2020 میں اپنے گروپ کو دوبارہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ملا لیا۔ امریکہ نے اس گروپ کو ٹی ٹی پی کے سب سے زیادہ فعال نیٹ ورکس میں سے ایک قرار دیا تھا۔

خراسانی کا گروپ پاکستان بھر میں اپنے حملوں کے لیے بدنام تھا، جن میں سے ایک سب سے بڑا حملہ 2016 میں ایسٹر سنڈے کے موقع پر لاہور میں ہونے والا بم دھماکہ تھا جس میں پاکستان کی اقلیتی عیسائی برادری کے 75 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

افغانستان میں ٹی ٹی پی کے تمام رہنماؤں کی موت بم دھماکوں یا فضائی حملوں کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ دسمبر 2019 میں انتہائی مطلوب دہشت گرد قاری سیف اللہ محسود کو افغانستان کے صوبہ خوست میں گولن پناہ گزین کیمپ کے قریب گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ سیف اللہ حکیم اللہ محسود گروپ کا ترجمان تھا اور پاکستان میں کئی دہشت گردانہ حملوں میں ملوث تھے۔ ان میں سے ایک 2015 میں کراچی میں ایک بس پر حملہ تھا جس میں کم از کم 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ محسود نے 2019 میں وزیرستان میں قبائلی بزرگوں کے خلاف 75 حملوں کا دعویٰ بھی کیا تھا، لیکن یہ دعویٰ تصدیق شدہ نہیں ہے۔ ٹی ٹی پی نے ایک پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملہ حقانی نیٹ ورک نے کیا تھا۔

جولائی 2023 میں اطلاعات سامنے آئیں کہ ایک بدنام زمانہ ٹی ٹی پی رہنما محمد طارق، جو طارق بٹن خراب کے نام سے مشہور تھا، کو افغانستان کے صوبہ کنڑ کے ضلع پائیچ درہ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ایک ویڈیو میں طارق کی گولیوں سے چھلنی لاش کو دکھایا گیا تھا۔

طارق کو یہ نام اس لیے ملا تھا کہ وہ ایک آنکھ سے معذور تھا۔ اسے 2021 میں کوہستان میں ہونے والے خودکش حملے کا منصوبہ ساز سمجھا جاتا تھا جس میں کم از کم نو چینی انجینئر ہلاک ہو گئے تھے جو داسو ڈیم پر کام کر رہے تھے۔ اسے پر اپریل 2022 میں کراچی میں چینی زبان کے مرکز پر حملے کی منصوبہ بندی میں بلوچستان لبریشن آرمی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بھی الزام تھا، جس میں ایک خاتون خودکش بمبار ملوث تھی۔

ٹی ٹی پی رہنما عبد المنان، جو حکیم اللہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ہیں، کو جنوری 2024 میں کنڑ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حملہ آوروں کی شناخت کبھی نہیں ہو سکی۔ منان ٹی ٹی پی کی شوریٰ میں ایک سینئر رہنما تھا جب گروپ کے نئے سربراہ نور ولی محسود نے 2023 میں اس کی تنظیم نو کی تھی۔ اس نے ٹی ٹی پی کے مالاکنڈ چاپٹر کے سربراہ عظمت اللہ محسود کے معاون کے طور پر بھی کام کیا تھا۔

منان 1985 میں باجوڑ میں پیدا ہوا تھا جس کے مطابق ہلاکت کے وقت اس کی عمر انتالیس سال بنتی ہے۔ وہ 2007 میں ٹی ٹی پی کی تشکیل کے وقت سے گروہ کا رکن تھا اور مسلح افواج پر متعدد حملوں میں ملوث تھا۔ اسے 2014 میں افغان حکومت نے گرفتار کر کہ جیل میں بند کر دیا تھا لیکن وا امریکی انخلا کے بعد آزاد ہوگیا۔

حالیہ سالوں میں میں افغانستان میں ہلاک ہونے والے ٹی ٹی پی کے رہنماوں میں ایک اور نام رحیم اللہ ورف شاہد عمر باجوڑی کا ہے۔ باجوڑی کو پچھلے سال تین ساتھیوں کے ہمراہ ایک دعوت پر بلا کر قتل کر دیا گیا۔ ٓس کے سر پر پاکستانی حکام نے دس لاکھ روپے کا انعام رکھا تھا۔

ان میں سے بیشتر دہشتگردوں کی ہلاکتیں افغان صوبوں کنڑ، پکتیا اور خوست میں ہوئیں جو پاکستانی سرحد سے ملحق ہیں۔یعنی یہ دہشتگرد پاکستانی حکام کی پہنچ سے باہر تھے لیکن پھر بھی ایسے مقام پر موجود تھے جہاں سے وہ نہ صرف وہ باآسانی پاکستان میں آ جا سکتے تھے بلکہ پاکستانی سرزمین پر حملوں کی منسوبہ بندی اور سرپرستی بھی کر سکتے تھے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں