طورخم بارڈر پر 50 افغان بچے جو مبینہ طور پر سمگلنگ کی سرگرمیوں میں ملوث تھے، افغانستان میں واپس بھیج دیے گئے۔ان بچوں نے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کی تھی جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔
رپورٹس کے مطابق روزانہ 700 سے زائد بچے سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حراست میں لیے گئے بچوں کو پاکستان کے فارنرز ایکٹ کے تحت ممکنہ قانونی کارروائی کا سامنا تھا جو قبائلی جرگہ کی مداخلت کے بعد رہا کر دیے گئے۔ جرگہ نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے اور انسانی ہمدردی کے پیش نظر ان کی واپسی کو ممکن بنایا۔
لنڈی کوتل کے ایس ایچ او عدنان آفریدی نے کہا کہ تورخم بارڈر کے ذریعے پاکستان میں افغان بچوں کی غیر قانونی داخلہ ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ان بچوں کو اکثر نادانستہ طور پر سمگلنگ کی سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے جس میں منشیات اور ممکنہ تخریبی مواد شامل ہیں۔ سرحد پار کرنے کی ان کی کوششوں میں اکثر باڑ کو نقصان پہنچانا شامل ہوتا ہے۔
فارنرز ایکٹ کے تحت قانونی کارروائی کرنے کے قانونی جواز کو تسلیم کرتے ہوئے عدنان آفریدی نے جرگہ کی مداخلت اور بچوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے بجائے انہیں ڈیپورٹ کرنے کے فیصلے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے بارہا انتباہ جاری کیے گئے ہیں لیکن افغان حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کی وجہ سے بچے حادثات کا شکار ہو رہے ہیں۔
تحصیل چیئرمین شاہ خالد شینواری نے بچوں کو غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اخلاقی اور قانونی طور پر بھی قابل مذمت ہے ۔ انہوں نے والدین سے اپنے بچوں کی تعلیم اور مستقبل کو ترجیح دینے کی اپیل درخواست کی نہ کہ ایسے غیر قانونی کاموں میں ملوث کیا جائے۔
قبائلی جرگہ کے رکن ملک تاج الدین شینواری نے پولیس اور فرانٹیئر کور نارتھ کے تعاون کی جرگہ کے فیصلے کا احترام کرنے پر اپنا شکریہ ادا کیا جس کی وجہ سے بچوں کو قید کیے بغیر واپس اپنے ملک بھیجنے کی اجازت دی گئی۔
اس تقریب میں کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے بھی شرکت کی جن میں صدر مجیب شینواری اور ذاکر شینواری شامل تھے۔
تورخم بارڈر کراسنگ کو حال ہی میں کھولا گیا تھا جسے تقریباً ایک ماہ تک بند رکھا گیا تھا کیونکہ افغان فوج کی طرف سے بارڈر کے زیرو پوائنٹ پر پاکستانی حدود کے اندر پوسٹس بنانے پر پاکستان کی طرف سے اعتراضات تھے۔