ایون جیل جو تہران کے ایون ضلع میں واقع ہے ملک کے سب سے مشہور قید خانوں میں سے ایک ہے۔ 1972 میں محمد رضا شاہ پہلوی کے دور حکومت میں قائم ہونے والی یہ جیل اس وقت سے ایران کے عدالتی نظام کی علامت اور اندرون و بیرون ملک توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ سیاسی قیدیوں، صحافیوں، ماہرین تعلیم اور کارکنوں کو رکھنے کے لیے مشہور ایون جیل ایران میں انسانی حقوق اور انصاف کے بارے میں کئی مباحثوں کا مرکز رہا ہے۔ 23 جون کو جیل کے گیٹ پر اسرائیلی حملے نے اسے ایک بار پھر خبروں کی زینت بنا دیا ہے۔
ایون جیل میں قید مشہور شخصیات اور بین الاقوامی تشویش
حالیہ برسوں میں ایون نے دوہری شہریت رکھنے والے افراد اور غیر ملکیوں کو جاسوسی یا دیگر جرائم کے الزام میں رکھنے کی وجہ سے توجہ حاصل کی ہے۔ اعلیٰ سطحی قیدیوں میں فرانسیسی جوڑا سیسل کوہلر اور جیک پیرس اور سویڈش ایرانی شہری احمد رضا جلالی شامل ہیں۔ حکومتوں اور وکالت کرنے والے گروہوں نے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، اکثر ان کے مقدمات میں مناسب عدالتی کارروائی یا شفافیت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے۔
ایون جیل کی تاریخ اور وسعت
ایون جیل کو ابتدائی طور پر شاہی حکومت کے سیاسی مخالفین کے لیے ایک حراستی مرکز کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ تقریباً 320 قیدیوں کو رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا جس کا مقصد ریاست کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتار افراد کو رکھنا تھا۔ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد جیل نئی حکومت کے کنٹرول میں آگئی اور اس کے بعد اس میں نمایاں توسیع ہوئی جو اب یہ ہزاروں قیدیوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔
ایون جیل میں اہم سیاسی اور تاریخی واقعات
کئی دہائیوں کے دوران ایون ایران میں اہم سیاسی اور تاریخی واقعات کا مقام رہا ہے۔ 1980 کی دہائی میں، اس نے اسلامی جمہوریہ کی مخالفت کرنے والے افراد کی قید اور پھانسی میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے بعد اس نے جاسوسی، سیاسی اختلاف، اور دیگر جرائم کے الزام میں گرفتار افراد کی ایک وسیع رینج کو رکھنا جاری رکھا ہے۔
ایون جیل کے وارڈز اور سہولیات
ایون جیل ایک بڑا کمپلیکس ہے جس میں متعدد وارڈز ہیں جہاں پر قیدیوں کے مخصوص گروپوں کے لیے الگ الگ وارڈز نامزد ہیں۔ کچھ وارڈز سیاسی قیدیوں کے لیے مخصوص ہیں جبکہ دیگر عام جرائم کے مرتکب افراد کو رکھتے ہیں۔ خواتین کے لیے بھی حصے ہیں اور اعلیٰ درجے کے قیدیوں، بشمول غیر ملکی شہریوں کے لیے علیحدہ سہولیات ہیں۔
ایون جیل میں حالات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
سابق قیدیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں میں ایون میں حالات کو انتہائی متغیر بتایا گیا ہے۔ کچھ وارڈز میں بہت زیادہ بھیڑ ہے جبکہ دیگر میں بعض قیدیوں کے لیے بہتر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ قانونی نمائندگی، صحت کی دیکھ بھال اور ملاقات کے حقوق تک رسائی بھی قیدی کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے۔
ایون جیل دہائیوں سے بین الاقوامی جانچ پڑتال کا مرکز رہی ہے خاص طور پر سیاسی قیدیوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے کافی مشہور رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں نے تنہائی قید، تشدد کے الزامات اور قانونی اور خاندانی ملاقاتوں پر پابندیوں کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔ جیل کو اختلاف رائے کو دبانے میں اس کے کردار کے لیے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ بہت سے صحافی، سیاسی کارکن اور طلباء کو وہاں حراست میں لیا گیا ہے۔
ایرانی حکام کا ردعمل اور اصلاحات کی کوششیں
ایرانی حکام نے کبھی کبھار ایون جیل پر تنقید کو تسلیم کیا ہے اور کچھ خدشات کو دور کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ مثال کے طور پر بعض وارڈز میں بہتر طبی سہولیات اور قانونی مشورے تک بہتر رسائی کی اطلاعات ملی ہیں۔ تاہم سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور سابق قیدیوں کا کہنا ہے کہ جیل کے نظام کے اندر وسیع تر مسائل کو حل کرنے کے لیے ابھی بھی نمایاں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
2022 میں ایون جیل میں آگ لگنے کا واقعہ
2022 میں ایون جیل میں آگ بھڑک اٹھی جس سے بظاہر کئی ہلاکتیں ہوئیں اور سہولت کی حفاظت اور انتظام کے بارے میں مزید خدشات پیدا ہوئے۔ اس واقعے نے ایون کے سائز اور اہمیت کی جیل کو چلانے کی پیچیدگیوں کو اجاگر کر دیا ہے۔
ایون جیل ایران کے عدالتی اور سیاسی منظر نامے کا ایک اہم حصہ
ایون جیل ایران کے عدالتی اور سیاسی منظر نامے کی ایک نمایاں خصوصیت بنی ہوئی ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ قومی سلامتی کو انفرادی آزادیوں کے ساتھ متوازن کرنے کے چیلنجوں کی علامت ہے۔ اگرچہ یہ جیل اکثر ایران میں انسانی حقوق کے بارے میں مباحثوں میں تنازع کا ایک نقطہ ہوتی ہے لیکن یہ ملک کی پیچیدہ تاریخ اور سیاسی اصلاحات اور ریاستی اتھارٹی کے درمیان جاری تناؤ کی بھی یاد دہانی کراتی ہے۔