پیر کے روز امریکا کے شہر نیویارک میں ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس میں فرانس اور موناکو نے باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے اس قدم کو "دو ریاستی حل” کی حفاظت کے لیے ضروری قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک "نئی فلسطینی اتھارٹی” کے تحت، فرانس اپنی سفارتخانہ کھولے گا، تاہم اس کا انحصار جنگ بندی اور غزہ میں قیدیوں کی رہائی جیسی شرائط پر ہوگا۔
خبر رساں ادارے ڈان نیوز کے مطابق اس ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قبل، کئی دیگر ممالک بشمول اینڈورا، بیلجیئم، لکسمبرگ اور سان مارینو کی جانب سے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کی توقع ہے۔ اس سے قبل آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال اور مالٹا بھی اس سلسلے میں اقدامات کر چکے ہیں۔ برطانیہ نے تو پیر کے روز لندن میں فلسطینی مشن کو سفارتخانے کا درجہ دے کر باقاعدہ پرچم کشائی بھی کی۔
پاکستان کی نمائندگی اس کانفرنس میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کی جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ وزیر خارجہ نے ایکس پر اپنے بیان میں فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کا خیرمقدم کیا اور دوسرے ممالک سے بھی اسی طرح کے اقدامات اٹھانے کی اپیل کی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان 1988 میں فلسطین کی آزادی کے اعلان کے بعد اسے تسلیم کرنے والے ابتدائی ممالک میں سے تھا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے وڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس سے خطاب کیا اور ان ممالک کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے فلسطین کو تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کی بھی درخواست کی اور جنگ بندی کے ایک سال کے اندر اصلاحات اور انتخابات کا وعدہ کیا۔
دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان اقدامات کی مخالفت کی ہے۔ ان کی ترجمان نے کہا کہ ٹرمپ کا ماننا ہے کہ یہ حماس کو انعام دینے کے مترادف ہے اور یہ کہ اس طرح کے اقدامات محض دکھاوا ہیں نہ کہ کوئی حقیقی کارروائی۔ ٹرمپ مسلم اکثریتی ممالک کے آٹھ رہنماؤں کے ساتھ ایک کثیر الجہتی اجلاس میں بھی شرکت کریں گے، جس میں غزہ کی صورتحال پر بات چیت متوقع ہے۔