عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر حاجی غلام احمد بلور کی کتاب “میں کیوں نہیں ٹوٹا” کے صفحہ نمبر 216 پر لکھا گیا ہے کہ فروری 1973ء میں نیپ اور جے یو آئی پی کی حکومت ٹوٹنے کے بعد بلوچ رہنماؤں کا رحجان عسکریت پسندی کی طرف ہو چکا تھا اور مرحوم خان عبدالولی خان اس پر خاصے ناراض تھے لیکن بہ ظاہر وہ اس وجہ سے سختی نہیں برت رہے تھے کہ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اس کو پشتون بلوچ تقسیم کی طرف لے جاتے اور اپنا سیاسی فائدہ اٹھاتے البتہ حیدر آباد جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے تمام بلوچ رہنماؤں کو اس راستے پر نا چلنے کی تلقین کی۔ ستر کی دہائی کے اس آپریشن میں ہزاروں بلوچ مارے گئے۔ یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان دولخت ہو چکا تھا اور غالبا بلوچ رہنماؤں کا یہ خیال تھا کہ ریاست کمزور ہے اور وہ آسانی سے اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ بنگال اور بلوچستان میں فرق نہیں کر پائے اور تب بلوچ قوم کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس وقت ان کو معلوم ہوا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں جب ایران نے بھی اس آپریشن کے لیے اپنے گن شپ ہیلی کاپٹر بھیجے۔ اس آپریشن کا اختتام جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء پر ہوا۔ پھر کئی دہائیوں تک بلوچ قوم ان نقصانات کا ازالہ نہیں کر پائی جو اس نے عسکریت پسندی کی شکل میں اٹھائے۔ ایک انٹرویو میں خود ڈاکٹر عبدالمالک نے اس کا اقرار کیا کہ انہوں نے بھی عسکریت پسندی کا راستہ پارلیمانی نظام کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اختیار کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بار بڑے پیمانے پر بلوچستان قوم پرست جماعتوں کو ایوان میں جگہ نہیں ملی
لیکن یہ جمہوری جدوجہد ہے جو جاری رہے گی۔
حال ہی میں بلوچ عسکریت پسندی ایک بار پھر جس راستے پر چل نکلی ہے اسی کو دیکھتے ہوئے مرحوم خان عبدالولی خان کی سیاسی بصیرت کی داد دینی پڑتی ہے۔ جس طریقے سے خضدار میں معصوم بچوں کی بس کو نشانہ بنایا گیا اور جس طرح بلوچ انتہاپسند اکاؤنٹس اس کو سازشی تھیوریوں سے جوڑ رہے ہیں اور عسکریت پسندی کا دفاع کر رہے ہیں صاف لگتا ہے کہ وہ مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ تششدد تششدد ہے چاہے پنجابی مرے، سرائیکی مرے، پشتون مرے یا پھر بلوچ، بچے مریں، خواتین مریں یا پھر بزرگ و جوان۔ ان واقعات سے وہ بیانیہ مضبوط ہوتا ہے کہ جو تششدد کا حامی ہے۔ بلوچ عسکریت پسند کھل کر ہندوستان کی حکومت سے درخواست کر رہے ہیں کہ انہیں استعمال کریں۔ ہندوستان کھل کر کہہ رہا ہے کہ ہم انہیں استعمال کر رہے ہیں۔ جو بلوچ رہنما اپنے پیاروں کی تلاش کے لیے ریاست کے دروازے بھی کھٹکھٹائیں تو آگے سے ان کو ان کے پیاروں کی مسلح تصاویر و بیانات دکھا کر صاف پیغام دیا جاتا ہے کہ یہ راستہ انہوں نے خود چنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے میں اب کوئی فرق نہیں رہا۔ انہوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول کے بچوں کو نشانہ بنایا اور پھر ذمہ داری لینے سے پیچھے ہٹنے لگے اور سب کچھ ایک کمانڈر نرے کے کھاتے میں ڈال دیا اور اب عوامی ردعمل دیکھ کر بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں بھی اس کو سازشی تھیوریوں کے کھاتے میں ڈال رہی ہیں۔ بلوچ رہنما اپنی قوم کو یہ بتانے میں اب تک ناکام رہے ہیں کہ اگر بلوچستان کو علیحدہ بھی کیا جاتا ہے تو وہ بھارت یا امریکہ کے پڑوس میں نہیں چلا جائے گا بلکہ یہی افغانستان، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے اندر پشتونوں کے بیچ میں ہی رہے گا۔ اکہتر میں ہندوستان کے شانوں پر بیٹھ کر پاکستان سے جدا ہونے والوں نے بالاخر اسی ہندوستان سے آزادی کی ایک اور لڑائی لڑی اور آج پھر اپنے بچھڑے بھائی سے ملنے کو بے چین ہے۔
غیر کے کہنے پر بلوچ قوم اپنی ہی بربادی کے راستے پر گامزن ہے۔ نہتے پنجابیوں، سرائیکیوں اور پشتونوں کو قتل کرکے وہ ایک ایسی بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں جہاں وہ خود ہی اپنی لگائی گئی آگ میں جلیں گے۔ جب افغانستان میں جہاد کے لیے ایندھن کی ضرورت پڑی تو ہزاروں کی تعداد میں پشتون نوجوان ایندھن بننے کو تیار ہوئے۔ اس وقت بھی مرحوم خان عبدالولی خان نے کہا تھا کہ یہ دو ہاتھیوں کی لڑائی ہے جس میں پشتون کچلا جائے گا۔ انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ یہ جو اسلحہ یہاں جمع ہو رہا ہے یہ پاکستان کے خلاف استعمال ہوگا۔ انہوں نے بلوچستان کو اس وقت بھی تنبیہہ کی تھی کہ بلوچستان عالمی کھیل کا مرکز بنے گا۔ آج ہندوستان کی جانب سے بلوچستان میں پرتشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی اور سپورٹ بلوچ قوم کے غم میں نہیں بلکہ بلوچ قوم کو غم میں دھکیلنے اور بلوچ سرزمین پر آگ کے شعلے بھڑکانے کے لیے کی جارہی ہے۔ بلوچ قوم میں مسلح کارروائیاں اور ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانے کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے۔ لیکن کیا بلوچ قوم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اور کیا بلوچ قوم نے تاریخ سے نا سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے؟ بہ ظاہر لگتا تو یہ ہے کہ ستر کی دہائی کی طرح بلوچ قوم ایک بار پھر غلط بس پر سوار ہو چکی ہے۔۔۔۔