منگل کے روز مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 20 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے جن میں غیر ملکی سیاح شامل ہیں۔ حالیہ تاریخ میں کشمیر میں سیکیورٹی ناکامیوں یہ سب سے بڑی ناکامی سے جوڑا جا رہا ہے اور یہ حملہ اس وقت ہوا جب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس ملک کا دورہ کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ حملہ ایک چراگاہ میں ہوا، اور سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ حملے میں تین تک حملہ آور شامل تھے۔ بعض ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 26 تک ہو سکتی ہے جن میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد ابھی معلوم کی جا رہی ہے، اس لیے میں ان تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ تاہم، انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ حملہ حالیہ دنوں میں شہریوں کو نشانہ بنانے والے کسی بھی حملے سے ’بہت بڑا‘ تھا۔
بھارتی وزیر اعظم مودی نے ایک بیان میں کہا کہ اس گھناؤنے فعل کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور انہیں بخشا نہیں جائے گا۔
دریں اثنا، وزیر داخلہ امت شاہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ کشمیر میں ایک سیکیورٹی میٹنگ کریں گے۔
اگرچہ بھارتی حکومت نے ابھی تک ہلاکتوں کی سرکاری تعداد یا تحقیقات کے آغاز کا اعلان نہیں کیا ہے تاہم بھارتی میڈیا نے 2019 کے پلوامہ حملے کی طرح اس حملے کا الزام بھی پاکستان پر عائد کرنا شروع کر دیا ہے۔
انڈیا ٹوڈے جیسے بعض بھارتی خبر رساں ادارے نے ’ماہرین‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی۔ ہندوستان ٹائمز نے اس حملے کو پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حالیہ خطاب سے جوڑا ہے۔
اس واقعے نے پاکستان کے خلاف بھارتی ذرائع ابلاغ کی شورش میں اضافہ کرتے ہوئے بھارت سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے ایک وسیع آن لائن مہم کو جنم دیا ہے۔
خبر کدہ سے بات کرتے ہوئے ایک سیکیورٹی ماہر نے کہا کہ صورتحال جنگی جنون کو ہوا دے رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "بھارتی میڈیا کا پاکستان کے بارے میں جنون بھارت کے لیے کسی بھی طرح کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا ہے۔ دانشمندی ایک مناسب تحقیقات کا تقاضا کرتی ہے۔”
سیکیورٹی ماہرین بھارتی حکومت کی جانب سے ایسے واقعات کا ماضی میں مشاہدہ کیے گئے پوشیدہ مقاصد اور سیاسی اہداف کے بارے میں بھی خبردار کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارہ رائٹرز کے مطابق، ’کشمیر ریزسٹنس‘ نامی ایک گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے علاقے کے آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے جس کے تحت بھارت سے 84,000 افراد کو ڈومیسائل حقوق دینے کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
یہ حملہ اس وقت ہوا جب امریکی نائب صدر چار روزہ دورے پر بھارت میں موجود ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم مودی سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔