طالبان انتظامیہ نے افغانستان کے 2003 میں انٹر نیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) کے روم سٹیٹوٹ میں شامل ہونے کو قانونی طور پر کالعدم قرار دے دیا ہے۔
یہ اعلان انٹر نیشنل کریمنل کورٹ کے چیف پراسیکیوٹر کی طرف سے طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور عبوری چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے الزامات پر گرفتاری کے وارنٹ کی درخواست کے بعد آیا ہے۔
طالبان کے نائب ترجمان حمداللہ فطرت نے ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر بیان دیا کہ آئی سی سی کے اقدامات سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت افغان شہریوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے جن میں افغانستان میں غیر ملکی افواج ذریعے کیے گئے جرائم بھی شامل ہیں۔
ترجمان نے غیرملکی افواج کے افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کے حوالے سے آئی سی سی کی عدم کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان جرائم میں گاؤں، اسکولوں اور دیگر شہری بنیادی ڈھانچوں کی تباہی شامل ہے۔ انہوں نے امریکہ سمیت بڑی عالمی طاقتوں کے آئی سی سی کی رکنیت سے دور رہنے پر بھی تنقید کی۔
طالبان کا ائی سی سی کے دائرہ اختیار کو مسترد کرنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان کا خیال میں 2003 میں شامل ہونے کا عمل مغربی حمایت یافتہ افغان انتظامیہ کے دور میں ہوا تھا جو 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں واپسی سے پہلے کا فیصلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلی حکومت کے اقدامات کے پابند نہیں ہیں۔ آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس معقول شواہد موجود ہیں کہ ہیبت اللہ اخوندزادہ اور عبدالحکیم حقانی افغان خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے ذمہ دار ہیں۔