فوری معاوضہ، کوئی انتظار نہیں: پاکستان میں پہلی بار کسانوں کے لیے ‘گیم چینجر’ نظام آ گیا!

سوچیں جب بارش معمول سے ہٹ جائے یا فصل وقت پر نہ اُگے تو ایک چھوٹے کسان کے لیے اس کا مطلب ہوتا ہے سارا سال کی محنت کا ضیاع۔ چارسدہ کے سردریاب کے کنارے رہنے والے شیر بہادر کا کہنا ہے کہ 2022 میں سیلاب نے ان کی گندم کی فصل تباہ کر دی تھی اور اس سال کے سیلاب نے بھی ان کی فصل کو نقصان پہنچایا۔ وہ بتاتے ہیں: "جب بھی سیلاب آتا ہے یہ ہماری نقد اور فصلوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ 2022 میں میری 5 ایکڑ زمین پر کھڑی گندم کی فصل تباہ ہو گئی تھی۔”

پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے محاذ پر سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ جھلسا دینے والی گرمی کی لہریں، خشک سالی، اور تباہ کن سیلاب ہر سال لاکھوں افراد کی زندگیوں اور روزگار کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ 2025 کے سیلاب نے صرف زراعت کے شعبے میں 302 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچایا جس کا سب سے زیادہ بوجھ ان کسانوں پر پڑا جن کی روزی زمین سے جڑی ہے۔

زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ مگر جب قدرتی آفات آتی ہیں تو زیادہ تر کسانوں کے پاس کوئی مالی تحفظ نہیں ہوتا۔ ملک میں صرف 9.5 فیصد کسانوں کے پاس انشورنس ہے۔ روایتی زرعی انشورنس تک رسائی مشکل ہے: پریمیم مہنگے ہیں، کلیم کا عمل پیچیدہ ہے اور مذہبی خدشات بہت سے لوگوں کو سود پر مبنی اسکیموں سے دور رکھتے ہیں۔

یہی وہ خلا ہے جو لاکھوں کسانوں کو ہر آفت کے بعد مالی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔ لیکن اب ایک نیا حل سامنے آ رہا ہے: ایک ایسا نظام جو تیزی سے مدد فراہم کر سکتا ہے, اور  یہ ہے پیرامیٹرک انشورنس۔

پیرامیٹرک انشورنس کیا ہے؟

پیرامیٹرک انشورنس کا تصور سادہ مگر طاقتور ہے۔ اس میں نقصان کے اندازے کے لیے انسپکٹرز بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے جب کوئی پہلے سے طے شدہ موسمی حد پار ہو جائے — جیسے بارش مقررہ سطح سے کم ہو جائے یا سیلاب کا پانی کسی خاص حد سے بڑھ جائے  تو ادائیگی خودکار طور پر جاری ہو جاتی ہے۔ یعنی نہ کاغذی کارروائی، نہ انتظار، بس فوری مدد۔

یہ ماڈل افریقہ، انڈونیشیا اور فجی جیسے ممالک میں کامیابی سے آزمایا جا چکا ہے جہاں کسانوں نے اس کے ذریعے طوفانوں اور خشک سالی کے بعد تیزی سے سنبھالا لیا۔ اگر وہاں یہ ممکن ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ یہ نظام ہمارے کسانوں کے لیے ایک نئی امید بن سکتا ہے ایک ایسا طریقہ جو قرض، غربت، اور امداد کے چکر کو توڑ سکے۔

موسمیاتی تبدیلوں پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی داؤد خان نے کہا کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں کسانوں کی فصلوں کا انشورنس ہوتا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ پاکستان میں بھی یہ نظام آ گیا۔ اس سے کسان نقصان سے بچ جائیں گے۔ خبر کدہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب بھی جو بڑے زمیندار ہیں وہ اپنی فصلوں کا انشورنس کرتے ہیں لیکن چھوٹے زمیندار اس انشورنس پالیسی سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "یہ نظام بھی بہت اچھا ہے لیکن اب دنیا ایگری ٹیک کی طرف جا رہی ہے جیسے کہ کتنی فصل کی ضرورت ہے اور کتنا پانی درکار ہے۔ اگر زمیندار ایگری ٹیک کی طرف جائیں تو نقصان سے بھی بچ سکتے ہیں، اور دوسری طرف یہ ضروری ہے کہ زمیندار شیڈز لگائیں تاکہ ژالہ باری اور طوفانوں سے بھی بچ سکیں۔”

پاکستان میں پیرامیٹرک انشورنس کا آغاز

پاکستان میں اگرچہ پیرامیٹرک انشورنس کا تصور نیا ہے، مگر کچھ ادارے اس سمت میں قدم بڑھا چکے ہیں۔ سلام تکافل لمیٹڈ نے جاز کیش کے ساتھ مل کر ایک پیرامیٹرک فصل انشورنس اسکیم متعارف کرائی ہے، جو درجہ حرارت، شدید بارش، ٹڈی دل کے حملے اور سیلاب جیسے خطرات پر خودکار ادائیگی فراہم کرتی ہے۔ اس ماڈل میں Blink Parametric کی ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے، جو ڈیٹا کے ذریعے انشورنس ادائیگی کو تیز اور شفاف بناتی ہے۔

چونکہ ادائیگیاں براہِ راست موسمی اشاروں سے جڑی ہوتی ہیں اس لیے پیرامیٹرک انشورنس تیزی اور شفافیت فراہم کرتی ہے۔ کسانوں کے لیے یہ فوری مالی مدد کا ذریعہ ہے، اور حکومت کے لیے آفات کے بعد اخراجات کم کرنے اور بجٹ میں استحکام لانے کا راستہ ہے۔ اس نظام کو موجودہ فلاحی پروگراموں جیسے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، مائیکروفنانس اداروں یا زرعی قرضہ اسکیموں کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ یوں ایک طرف کسان کو تحفظ ملتا ہے، اور دوسری طرف حکومت اور مالی ادارے بحران کے بعد بھی معیشت کو متوازن رکھ سکتے ہیں۔

چیلنجز اور حل

البتہ کچھ چیلنجز اپنی جگہ موجود ہیں۔ پاکستان میں موسم کی نگرانی کا نظام ابھی کمزور ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ درست موسمی ڈیٹا کے بغیر، ادائیگی کے معیار طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر عوام میں آگاہی اور بھروسے کی کمی، مذہبی خدشات، اور اخراجات یہ سب عوامل راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

لیکن اگر حکومت، نجی شعبہ، اور امدادی ادارے مل کر پائلٹ پروجیکٹس شروع کریں، مضبوط ڈیٹا سسٹم بنائیں، اور عوام کو آگاہ کریں تو پیرامیٹرک انشورنس واقعی گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ صرف ایک انشورنس ماڈل نہیں بلکہ زندگی دوبارہ شروع کرنے کی ایک امید ہے۔ کیونکہ جب اگلا سیلاب یا خشک سالی آئے گی، کسانوں کو سب سے زیادہ ضرورت ہمدردی نہیں، بلکہ فوری مدد، یقین، اور تحفظ کی ہوگی۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں