پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ایک ہفتے سے زائد جھڑپوں کے بعد بالآخر فائر بندی کا اعلان ہو گیا ہے۔ یہ معاہدہ ترکی، قطر اور سعودی عرب کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم یہ فائر بندی صرف عارضی قرار دی جا رہی ہے، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔
پاکستان کا موقف اور افغان طالبان کا انکار
پاکستان کا موقف واضح ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں موجود ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق یہ گروپ افغان سرزمین کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہا ہے جس سے پاکستان کی سلامتی کو مسلسل خطرہ لاحق ہے۔
افغان طالبان اس الزام کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا ٹی ٹی پی پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ کئی بار پاکستان کے حملوں میں ٹی ٹی پی کے ارکان افغانستان میں مارے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، مذاکرات کے دوران بھی جب بڑی تعداد میں ٹی ٹی پی کے ارکان پاکستان واپس آ رہے تھے تو پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے انہیں نشانہ بنایا۔ یہ واقعات دونوں فریقین کے درمیان عدم اعتماد کو عیاں کرتے ہیں۔
ماہرین کا نقطہ نظر
تجزيه کاروں کا خیال ہے کہ یہ فائر بندی زیادہ دیر قائم نہیں رہے گی۔ اس کی وجوہات ہیں، اوّل یہ کہ افغانستان کی کمزور عملداری اور طالبان حکومت ابھی مکمل طور پر مستحکم نہیں ہوئی۔ دوسری یہ کہ ٹی ٹی پی کو کچھ حلقے ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ کا ہتھیار سمجھتے ہیں۔ تیسری یہ کہ داعش خراسان جیسی تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی جو نہ صرف طالبان بلکہ پاکستان کو بھی خطرہ ہیں۔
خاص طور پر ٹی ٹی پی اب بھی پاکستان میں آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہے، جو فائر بندی کی صداقت پر سوال اٹھاتا ہے۔
عبدالولی خان یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالشکور نے اس معاہدے کے مستقبل پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے: "مجھے خدشہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ بارڈر بندش زیادہ دیر تک یا ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہے گی۔ اس خدشے کا اظہار پاکستان نے بھی کیا ہے۔”
انہوں نے خبر کدہ کو بتایا کہ دوسرے ممالک نے ابھی تک افغان طالبان کو تسلیم نہیں کیا جو ان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالشکور نے کہا کہ پاکستان کا مطالبہ ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے ختم کیے جائیں مگر یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔
عبدالشکور نے بارڈر کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کا 2600 کلومیٹر لمبا بارڈر اکثر چھوٹی موٹی جھڑپوں کا شکار ہوتا ہے۔ مستقبل میں ایسی خلاف ورزیوں کا خطرہ برقرار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ روس کے دورے پر تھے جبکہ پاکستان میں مسلح حملے بھی ہوئے۔ لہٰذا، دونوں ممالک کو دوست ممالک (ترکی، قطر، سعودیہ) کے ساتھ مل کر بیٹھنا چاہیے اور مسئلے کا گہرا حل تلاش کرنا چاہیے۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر عمر خان علی شیرزئی کا اس حوالے سے تجزیہ زیادہ عملی ہے۔ ان کے خیال میں افغان طالبان ٹی ٹی پی کو روک سکتے ہیں۔ انہوں نے پہلے گل بہادر گروپ کو روکا تھا مگر پاکستان نے اسے بڑی حد تک ختم کر دیا۔ اب طالبان ٹی ٹی پی کو کنٹرول کر سکتے ہیں ورنہ الزام ان پر آئے گا۔
علی شیرزئی نے خبرکدہ کو خصوصی گفتگو میں اپنے تجاویز میں بتایا کہ افغان طالبان کی خواہش ہے کہ ان کی انٹرنیشنل ریکگنیشن ہو اور خاص طور پر پاکستان انہیں تسلیم کر لیں۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان کو ہندوستان سے دوستی سے ذاتی فائدہ تو ہوا مگر مجموعی طور پر قوم کو نقصان پہنچا ہے۔ سفیر نے مزید بتایا کہ افغانستان کے ہسپتالوں، سڑکوں اور خوراک کا انحصار پاکستان پر ہے۔ اور افغانستان کو یہ حقیقت تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمسایہ بدلا نہیں جا سکتا۔
شیرزئی نے آخر میں بتایا کہ اگر طالبان ٹی ٹی پی کنٹرول نہ کر سکیں تو پاکستان سے کہیں کہ وہ خود حل نکال لے اور اس سے نمٹنے کے لیے افغانستان مطلوبہ مدد فراہم کریں تاکہ خطے میں دیرپا امن کو یقنی بنایا جا سکے۔
یہ فائر بندی ایک اچھی شروعات ہے مگر اسے دیرپا امن میں بدلنے کے لیے دونوں فریقین کو سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ٹی ٹی پی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو جھڑپیں دوبارہ شروع ہو سکتی ہیں۔ افغان امور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ دوست ممالک کی مدد اور مشترکہ کوششوں سے ہی یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
کیا یہ معاہدہ صرف وقفہ ہے یا حقیقی امن کی بنیاد؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔