پنجاب حکومت نے تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو "مالی یا سیاسی حمایت” فراہم کرنے والے افراد کو دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے کی تنبیہ کی ہے۔ صوبائی کابینہ نے تنظیم پر پابندی عائد کرنے کی سمری وفاقی حکومت کو بھیج دی ہے اور جلد فیصلے کی توقع ہے۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات و ثقافت عظمیٰ بخاری نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ 3,800 ٹی ایل پی فنانسرز کی شناخت کی گئی ہے جن کے فنڈنگ ذرائع کو روک دیا گیا ہے اور ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پابندی چند روز میں نافذ ہو جائے گی۔
صوبائی وزیر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کے گھر سے 1.92 کلوگرام سونا، 898 گرام چاندی، 68 نایاب گھڑیاں اور دیگر قیمتی اشیاء برآمد ہوئی ہیں۔انہوں نے سعد رضوی پر ‘بے نامی’ جائیدادیں خریدنے کا بھی بتایا ہے۔ عظمیٰ بخاری نے تصدیق کی کہ سعد رضوی اور ان کے بھائی انس رضوی کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے اور ان سے منسلک 95 بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں۔
عظمیٰ بخاری نے مزید بتایا کہ ٹی ایل پی سے وابستہ 130 مساجد اور 223 مدارس کا انتظام و انصرام محکمہ اوقاف کے تحت کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے والدین کو خبردار کیا کہ وہ اپنے بچوں کو ٹی ایل پی کی سرگرمیوں سے دور رکھیں ورنہ ان پر بھی دہشت گردی کے الزامات عائد ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے بھی ٹی ایل پی پر پابندی کے لیے پنجاب حکومت کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس کی تصدیق کی اور کہا کہ مناسب چھان بین جاری ہے۔ انہوں نے ٹی ایل پی کے حالیہ احتجاج کے مقاصد پر سوال اٹھایا اور الزام لگایا کہ تنظیم سود کی مذمت کرتی ہے مگر اپنے بینک اکاؤنٹس میں عطیات پر سود کماتی ہے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں ملک میں انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے پاکستان کو ایک "سخت ریاست” (Hard State) کے طور پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور تشدد پر مبنی گروہوں کو "ناقابل قبول” قرار دیا۔
طلال چوہدری نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد مارچ کے منصوبے کے حوالے سے کہا کہ حکومت مولانا کو ساتھ لانے کی کوششیں جاری رکھے گی اور انہیں تنہا نہیں ہونے دے گی۔ تاہم، مولانا فضل الرحمان حالیہ انتخابات کے بعد سے حکومت پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔