دو سالوں میں سندھ میں 56 خواجہ سرا قتل، کمیونٹی کا پُرتشدد واقعات پر احتجاج

جینڈر انٹریکٹیو الائنس کی صدر بندیا رانا نے انکشاف کیا ہے کہ 2022 سے اب تک سندھ میں کم از کم 56 خواجہ سراؤں کو قتل کیا جا چکا ہے اور انہوں نے اسے "ظلم کی انتہا” قرار دیا۔

خبر رساں ادارے دی ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے بندیا رانا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خواجہ سرا کمیونٹی سب سے زیادہ پسماندہ گروہوں میں سے ایک ہے جسے رہائش، خوراک، شناختی کارڈ اور روزگار جیسے مسائل کا مسلسل سامنا ہے۔ انہوں نے مزید افسوس کا اظہار کیا کہ شادیوں اور دیگر تقریبات میں رقص اور پرفارمنس کا روایتی ذریعہ معاش تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ "اب لوگوں نے ہمیں اپنی تقریبات میں بلانا بند کر دیا ہے۔ ہماری کمیونٹی کے 90 فیصد سے زیادہ افراد بھیک مانگ کر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔”

بندیا رانا نے کراچی میں حالیہ واقعات، بشمول چاقو اور گولی مارنے کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تشدد کے ایک پریشان کن رجحان کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس ہفتے کئی خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا، جس کے بعد کمیونٹی میں مشاورت جاری ہے اور صوبے بھر میں احتجاجی مظاہروں کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

یہ بحران صرف سندھ تک محدود نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا میں کمیونٹی کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ٹرانسجینڈر ایسوسی ایشن کی صدر فرزانہ ریاض نے بتایا کہ 2015 اور 2025 کے درمیان صوبے میں کم از کم 157 خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اور کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں خواجہ سراؤں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی حقوق کے گروپوں کے مطابق، پاکستان میں تقریباً پانچ لاکھ خواجہ سرا شہری ہیں، جو مسلسل سماجی بائیکاٹ، ہراسانی اور تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک بیان میں زور دے کر کہا ہے کہ ” خواجہ سرا معاشرے کا ایک کمزور طبقہ ہیں اور ہم سب کو انہیں عزت اور وقار دینا چاہیے۔”

خواجہ سرا حقوق ایکٹ 2018 کے باوجود، جس نے افراد کو اپنی جنس کی شناخت خود کرنے کی اجازت دی تھی، قانون کے کچھ حصوں کو شریعت عدالت نے ختم کر دیا، جس سے کئی تحفظات کمزور ہو گئے۔ ایک نشریاتی ادارے دی لانسیٹ کی 2023 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں دس میں سے نو خواجہ سراؤں کو جسمانی حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد کی شدت کو واضح کرتا ہے

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں