15 اکتوبر سے خیبر پختونخوا کا نیا وزیراعلیٰ بغیر کابینہ کے کام چلا رہا ہے جس سے صوبے میں مالی اور انتظامی نوعیت کا بحران پیدا ہونے کا امکان ہے۔ صوبے کے وزیراعلیٰ کو ایک ہفتے سے زائد وقت گزرنے کے باوجود کابینہ کے انتخاب میں کامیابی نہیں ہوئی۔
بیس اکتوبر 2025ء کو خیبر پختونخوا اسمبلی کا خصوصی اجلاس جاری تھا۔ اراکینِ اسمبلی صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال پر بحث کر رہے تھے۔ اسمبلی ہال کے قریب خصوصی چیمبر میں نو منتخب وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی اراکینِ اسمبلی سے ملاقات کر رہے تھے۔ اچانک اسمبلی اجلاس کے دوران تیزی سے ڈیسک بجنا شروع ہو گئے۔ اسمبلی ہال کا دروازہ کھلتے ہی پروٹوکول کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے۔ یہ وزیرِاعلیٰ کی حیثیت سے سہیل آفریدی کی صوبائی اسمبلی میں پہلی آمد تھی۔
اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عبادُاللہ کی تقریر ختم ہوتے ہی اسپیکر بابر سلیم سواتی نے وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی کو تقریر کا موقع دیا۔ تقریر کے آغاز میں پارٹی بانی عمران خان کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی اپنی حکومت کی پالیسی کے مطابق پنجاب اور وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ صوبائی اور وفاقی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے سہیل آفریدی نے ایوان کو بتایا کہ میری حکومت کی کابینہ نہیں ہے اور میری کابینہ اُس وقت بنے گی جب پارٹی چیئرمین عمران خان سے ان کی ملاقات ہو گی۔ ’’مجھے مسلسل عمران خان سے ملاقات سے روکا جا رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ عمران خان سے قانونی طریقۂ کار کے مطابق ملاقات کروں، اپنی نئی کابینہ کو تشکیل دوں اور حکومت کے تمام امور معمول پر لے آؤں۔‘‘
سابق وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈاپور کے استعفے کے بعد قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے تحریکِ انصاف کے رکنِ اسمبلی 13 اکتوبر 2025ء کو 145 رکنی ایوان میں 90 ووٹ لے کر خیبر پختونخوا کے اکیسویں منتخب وزیرِاعلیٰ بن گئے۔ انتخاب کے بعد وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی نے سب سے پہلے عمران خان سے ملنے کی کوشش کی، لیکن اڈیالہ جیل میں ان کی عمران خان سے ملاقات نہ کروائی گئی، جس کے بعد انہوں نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے پنجاب حکومت کو احکامات جاری کیے کہ 23 اکتوبر 2025ء کو سہیل آفریدی کی عمران خان سے ملاقات کروائی جائے۔ 13 اکتوبر کو انتخاب کے بعد تاحال سہیل آفریدی نے اپنی کابینہ تشکیل نہیں دی ہے اور 20 اکتوبر کے اسمبلی اجلاس میں انہوں نے واضح کیا کہ عمران خان سے ملاقات تک نئی کابینہ نہیں بنائی جائے گی۔
کیا سہیل آفریدی نے نئی کابینہ کی تشکیل پر کام شروع کیا ہے؟
پاکستان تحریکِ انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے اس رپورٹر کو بتایا کہ علی امین گنڈاپور کے استعفے کے متعلق جب عمران خان انہیں ہدایات دے رہے تھے تو عمران خان نے نئی کابینہ کی تشکیل سے متعلق بھی خصوصی ہدایات جاری کیں اور سہیل آفریدی سے ملاقات کے دوران انہوں نے عمران خان کی تمام ہدایات اُن تک پہنچائیں۔ نئی کابینہ کی تشکیل سہیل آفریدی کا استحقاق ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ نئی کابینہ کے تمام اراکین کی عمران خان سے ملاقات کے دوران توثیق کریں گے۔
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما نے بتایا کہ سہیل آفریدی نے نئی کابینہ کی تشکیل کے لیے پارٹی کے مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں اور انہوں نے کافی حد تک کابینہ اراکین کے ناموں پر مبنی فہرست کو حتمی شکل بھی دے دی ہے۔ لیکن وہ پارٹی میں تنقید سے بچنے کے لیے عمران خان سے ملاقات کر کے ان ناموں کی توثیق کروائیں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نئی کابینہ کی تشکیل کے لیے سہیل آفریدی پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ سابق وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈاپور نے انہیں ایک فہرست تھمائی ہے کہ ان ناموں کو نئی کابینہ میں شامل کیا جائے۔ ساتھ ہی پارٹی کے صوبائی صدر جنید اکبر اور پارٹی رہنما عاطف خان گروپ کی جانب سے بھی کئی من پسند شخصیات کو کابینہ میں شامل کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ اسد قیصر اور شہرام ترکئی اپنے بھائیوں کے لیے سہیل آفریدی سے مسلسل ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ پارٹی کی مرکزی قیادت نئی کابینہ کی تشکیل میں سہیل آفریدی پر تیمور سلیم جھگڑا اور کامران بنگش کو شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔
دوسری جانب صوبائی حکومت کے منتخب نمائندوں کی طرف سے یہ معلومات بھی سامنے آئی ہیں کہ صوبے کی کابینہ میں مزمل اسلم کے علاوہ کوئی اور غیر منتخب شخص شامل نہیں کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے منتخب اراکین نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو وہ اس کی مکمل مخالفت کریں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کابینہ کے انتخاب میں غیر منتخب افراد کو شامل کرنے پر اعتراضات اٹھ رہے ہیں۔ اس سے قبل علی امین گنڈاپور کے دور میں بھی بیرسٹر محمد علی سیف صوبائی حکومت کے ترجمان تھے اور پارٹی کے اراکین کی طرف سے وقتاً فوقتاً ان پر تنقید کی جاتی رہی۔
کیا کابینہ کے بغیر حکومت چلائی جا سکتی ہے؟
پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ مختلف نوعیت کے متعدد فیصلوں میں یہ واضح کر چکی ہے کہ کابینہ ہی حکومت ہے اور کابینہ کے بغیر حکومت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 90 اور 91 میں اس بات کی تشریح کی ہے کہ حکومت کا مطلب کابینہ ہے، فردِ واحد نہیں۔ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 129 میں اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ مرکز کی طرح صوبوں پر بھی یہ قانون من و عن لاگو ہوتا ہے۔ عمران خان کی جانب سے 7 اپریل 2022ء کے کیس میں سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ آئینی طور پر حکومت کا مطلب کابینہ ہے، وزیرِاعظم کابینہ کی منظوری کے بغیر تنہا حکومتی فیصلے نہیں کر سکتا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے دوران مشاہدات میں بتایا گیا ہے کہ وزیرِاعظم یا وزیرِاعلیٰ انفرادی طور پر فیصلوں کے مجاز نہیں جب تک کابینہ کی منظوری نہ ہو۔ ریاستی فیصلے، معاہدے، آرڈیننس اور ادارہ جاتی فیصلوں سمیت بڑے اقدامات صرف کابینہ کی منظوری سے درست تصور کیے جائیں گے۔ سپریم کورٹ نے 2016ء میں راجہ عامر عباس کیس، 2017ء میں پانامہ کیس اور 2019ء میں اورنج میٹرو لائن میں یہ واضح کیا ہے کہ وزیرِاعظم یا وزیرِاعلیٰ فردِ واحد کی حیثیت سے فیصلے کرنے کے مجاز نہیں۔
کابینہ نہ ہونے کی وجہ سے سہیل آفریدی کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟
اگر کسی وزیرِاعظم یا وزیرِاعلیٰ کی کابینہ نہ ہو تو ان کے کئی فیصلوں کے نقصانات سامنے آ سکتے ہیں اور مسئلہ اس وقت خیبر پختونخوا حکومت کو درپیش ہے۔ سہیل آفریدی جب تک نئی کابینہ تشکیل نہیں دیتے، انہیں کئی امور پر فیصلہ سازی میں مشکلات درپیش ہوں گی۔ کابینہ کی عدم موجودگی کے باعث سہیل آفریدی کو کئی اہم صوبائی امور میں مشکلات کا سامنا ہے، اسی طرح انہیں انتظامی فیصلوں میں بھی تعطل کا سامنا ہے۔ کئی اہم قوانین کی منظوری اور آرڈیننس کے اجرا بھی کابینہ کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔ اس وقت کابینہ کے ابتدائی ایجنڈے کے مطابق 58 سے زائد امور کے چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ کابینہ کی منظوری کے بغیر اُن امور کو شروع کرنا ممکن نہیں۔
بیوروکریسی کے مطابق اس وقت اختیارات کا مرکز سہیل آفریدی کی ذات ہے۔ جمہوریت میں اختیارات کسی ایک ذات میں مرتکز ہونے کے بجائے شراکت داری پر مبنی ہوتے ہیں۔ اسی طرح سہیل آفریدی امن و امان کی صورتحال سے لے کر گڈ گورننس اور فنڈز کے اجرا کے امور میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ سرکاری مشینری اگرچہ اس وقت فعال ہے لیکن حکومت کی جانب سے پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے نئے اقدامات اٹھانے سے گریزاں ہے۔ اگر کابینہ کے انتخاب میں تاخیر ہوتی ہے تو انتظامی مشینری کے مفلوج ہونے کے ساتھ سیاسی عدمِ استحکام کا بھی خدشہ ہے۔