اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ اُمِ حسان کو ایک حکومتی گاڑی پر حملہ کرنے اور اہلکاروں پر فائرنگ کرنے کے کیس میں چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔
اے ٹی سی جج طاہر عباس سپرا نے کیس کی سماعت کی اور سات مردوں اور چھ خواتین بشمول اُمِ حسان کو چار روزہ کے جسمانی ریمانڈ پر بھیج دیا۔
بدھ کے روز اُمِ حسان کو اسلام آباد کے مارگلہ ٹاؤن میں واقع مدنی مسجد سے گرفتار کیا گیا تھا- ان کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق انہوں نے سی ڈی اے کے اہلکاروں کو روکنے کی کوشش کی جو اشرف العلوم مدرسہ کی تعمیر کی نگرانی کر رہے تھے۔
اسلام آباد پولیس کے لا افیسر طاہر کاظم نے خبر کدہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ خالی پلاٹ مدرسے کے لیے مختص کیا گیا تھا اور اہلکار وہاں تعمیراتی کام کی نگرانی کے لیے موجود تھے جب اُمِ حسان نے دیگر خواتین اور مردوں کے ساتھ مل کر اہلکاروں پر حملہ کر دیا۔
ایف آئی آر کے مطابق اُمِ حسان کی قیادت میں ایک گروہ نے سی ڈی اے کی پراپرٹی کو نقصان پہنچایا اور اہلکاروں پر فائرنگ بھی کی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں اُمِ حسان کو گرفتاری سے پہلے پولیس اہلکاروں کو دھمکیاں دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ۔ ویڈیو میں پولیس اہلکار کو اُمِ حسان سے کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ عمارت کو کہیں اور منتقل کریں گے۔
ایک ویڈیو پیغام میں مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ اُمِ حسان وہاں اس لیے گئی تھیں کیونکہ کسی نے انہیں بتایا تھا کہ حکام ایک مسجد کو مسمار کر رہے ہیں۔
مولانا عبدالعزيز نے خبر کدہ کو بتایا کہ مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب حکام نے اعلان کیا کہ مری روڈ پر واقع 2 کنال کے پلاٹ پر تعمیر شدہ مدرسہ اشرف العلوم کو مارگلہ ٹاؤن میں 4 مرلے کے پلاٹ پر منتقل کر دیا جائے گا۔ جواب میں اُمِ حسان وہاں گئیں اور انتظامیہ سے بات چیت کے بعد یہ طے پایا کہ تمام فریقین کل بیٹھ کر فیصلہ کریں گے کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ تاہم، مولانا نے کہا کہ انہیں اس وقت اچانک اُمِ حسان کی گرفتاری کی خبر ملی۔
مولانا نے حکومت سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ امن کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت ام الحسان کو رہا کریں ۔
دریں اثناء تحریک طالبان پاکستان نے بھی ام الحسان کی حمایت میں ایک بیان جاری کیا ہے۔