صدر ٹرمپ دو ہفتوں میں ایران ــاسرائیل تنازعہ میں شمولیت کا فیصلہ کرینگے

| شائع شدہ |16:20

وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے فضائی تنازع میں امریکہ کی ممکنہ مداخلت پر غور کر رہے ہیں اور اس بارے میں فیصلہ دو ہفتوں کے اندر متوقع ہے۔ یہ بیان تہران سے سفارتی مذاکرات کی طرف لوٹنے کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے دوران سامنے آیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیویٹ نے میڈیا کو صدر ٹرمپ کے پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘ایران کے ساتھ مستقبل قریب میں مذاکرات کے کافی امکان کے پیش نظر، میں آئندہ دو ہفتوں کے اندر مداخلت کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں اپنا فیصلہ کروں گا۔’

ریپبلکن صدر نے بین الاقوامی برادری کو اپنے ارادوں کے بارے میں غیر یقینی میں رکھا ہوا ہے وہ کبھی فوری سفارتی حل کا مطالبہ کرتے ہیں تو کبھی یہ اشارہ دیتے ہیں کہ امریکہ فوجی طور پر اسرائیل کا ساتھ دے سکتا ہے۔ بدھ کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا اقدام کریں گے۔ اس سے ایک دن پہلے انہوں نے متنازع طور پر سوشل میڈیا پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قتل کی تجویز دی تھی جبکہ ایران سے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ان بیانات نے ٹرمپ کی حمایت کرنے والوں میں دڑاڑ ڈال دی ہے جن میں سخت گیر روایتی ریپبلکنز اور پارٹی کے زیادہ تنہا پسند دھڑے شامل ہیں۔

تاہم ناقدین نے نشاندہی کی ہے کہ اقتدار میں واپسی کے پانچ ماہ بعد سے ٹرمپ نے بارہا مختلف ڈیڈ لائنز مقرر کی ہیں جن میں روس اور یوکرین کے درمیان تنازع سے لے کر تجارتی محصولات کے مذاکرات تک شامل ہیں جو بعد میں انہیں معطل کر دیا یا نظر انداز کر دیا ہے۔

ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے سوشل میڈیا  پر شکوک و شہبات کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ "میرے خیال میں ایران کے ساتھ جنگ ایک خوفناک خیال ہے، لیکن کوئی بھی اس ‘دو ہفتے’ کے دعوے پر یقین نہیں کرتا۔ انہوں نے اسے بے شمار بار پہلے بھی ایسے اقدامات کا بہانہ بنانے کے لیے استعمال کیا ہے جو وہ درحقیقت نہیں کر رہے۔ یہ صرف امریکہ کو کمزور اور احمقانہ ظاہر کرتا ہے۔”

وائٹ ہاؤس کی باقاعدہ بریفنگ میں لیویٹ نے دوبارہ اس بات پر زور دیا کہ صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ سفارتی حل کے حق میں ہیں لیکن اس بات پر زور دیا کہ ان کی سب سے اہم ترجیح تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ کسی بھی ممکنہ معاہدے میں ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی پر پابندی لگنی چاہیے اور جوہری ہتھیار تیار کرنے کی اس کی صلاحیت کو ختم کرنا چاہیے۔

لیویٹ نے کہا کہ ‘صدر ہمیشہ سفارت کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر اس کا کوئی موقع ملتا ہے تو وہ اسے حاصل کریں گے۔ لیکن جب ضروری ہو تو وہ طاقت کا مظاہرہ کرنے سے بھی نہیں ڈرتے۔’

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں