امریکی حکومت نے غیر ملکی طلباء کے ویزا درخواستوں کے لیے پہلے سے معطل شدہ عمل کو بحال کر دیا ہے۔ تاہم اس عمل میں ایک نئی شرط متعارف کرائی گئی ہے جہاں درخواست دہندگان کو اپنے سوشل میڈیا پروفائلز کو پبلک کرنا ہوگا تاکہ حکومتی اہلکار مکمل آن لائن جانچ پڑتال کر سکیں۔
بدھ کو جاری کردہ ایک بیان میں امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا کہ قونصلر افسران کو اب سوشل میڈیا پوسٹس کو کسی بھی ایسے مواد کے لیے جانچنے کی ہدایت کی جائے گی جو امریکہ، اس کے عوام، ثقافت، حکومت، فنڈنگ، یا بنیادی اصولوں کے لیے معاندانہ سمجھا جائے گا۔
جو درخواست دہندگان اپنے سوشل میڈیا پروفائلز کو عوامی بنانے کی شرط پر عمل نہیں کرتے انہیں غیر تعاون کنندہ سمجھا جا سکتا ہے اور ان کی ویزا درخواستیں مسترد ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ نوٹس میں زور دیا گیا ہے کہ "عمل نہ کرنے سے آن لائن رویے کو چھپانے کی کوشش سمجھا جا سکتا ہے۔”
یہ نئی ہدایت 28 مئی کو ویزا پراسیسنگ میں عارضی تعطل کے بعد آئی ہے جس کے دوران ٹرمپ انتظامیہ نے غیر ملکی طلباء کے لیے اپنی اسکریننگ پروٹوکول کا جائزہ لیا ہے۔
امریکی انتظامیہ نے واضح کیا کہ اس کا بنیادی مقصد ایسے افراد کو ملک میں داخلے سے روکنا ہے جنہیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
امریکی قونصل خانوں کو جاری کردہ اندرونی رہنمائی کے مطابق، افسران کو ایسے افراد کی شناخت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جو نامزد دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں یا جو غیر قانونی سامیت مخالف اقدامات یا تشدد میں ملوث ہیں یا ان کی توثیق کرتے ہیں یا انہیں فروغ دیتے ہیں۔
نظرثانی شدہ ویزا پالیسی تعلیمی طلباء کے لیے F ویزا، پیشہ ورانہ طلباء کے لیے M ویزا، اور تبادلہ پروگرام کے زائرین کے لیے J ویزا پر لاگو ہوتی ہے۔
ان تینوں زمروں کے درخواست دہندگان سے اب توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی پرائیویسی سیٹنگز کو "پبلک” پر ایڈجسٹ کریں۔
محکمہ خارجہ کے ایک سینئر اہلکار نے قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے نئے اقدامات کا دفاع کیا اور کہا کہ ‘امریکی شہریوں کی یہ توقع ہے کہ ان کی حکومت ہمارے ملک کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی، اور ٹرمپ انتظامیہ روزانہ یہی کر رہی ہے۔’
بین الاقوامی طلباء ویزا انٹرویو کی ملاقاتوں کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں کیونکہ تعلیمی سال سے قبل سفر اور رہائش کا انتظام کرنے کا وقت تیزی سے محدود ہو رہا ہے۔ چین، بھارت، میکسیکو اور فلپائن کے طلباء اپنی تشویش آن لائن شیئر کر رہے ہیں اور ویزا اپوائنٹمنٹ پلیٹ فارمز اور محکمہ خارجہ کی سرکاری اپڈیٹس کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔
محکمہ خارجہ نے مزید کہا کہ ‘اس جانچ کو آسان بنانے کے لیے، تمام درخواست دہندگان سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے تمام سوشل میڈیا پروفائلز کی پرائیویسی سیٹنگز کو ‘پبلک’ پر ایڈجسٹ کریں۔’
سخت جانچ کا یہ عمل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کی معروف یونیورسٹیوں پر وسیع تر پابندی کے درمیان آیا ہے، جن پر انہوں نے سیاسی تعصب اور فلسطین کے حامی مظاہروں پر نرم رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے، انتظامیہ اس ادارے کو غیر ملکی طلباء کو داخلہ دینے سے روکنا چاہتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ہارورڈ میں بین الاقوامی طلباء کی تعداد 15 فیصد تک محدود کرنے کی تجویز پیش کی ہے اور یونیورسٹی کو 2.65 بلین ڈالر کی وفاقی فنڈنگ معطل کر دی ہے۔
ایک متعلقہ پیش رفت میں ٹرمپ انتظامیہ نے 36 ممالک کو ایک سفارتی پیغام جاری کیا ہے جس میں انہیں 60 دنوں کے اندر اپنے مسافروں کی اسکریننگ کے طریقہ کار کو مضبوط بنانے کی تاکید کی گئی ہے بصورت دیگر انہیں امریکی سفری پابندی کی فہرست میں شامل کیے جانے کا خطرہ ہے، جس میں فی الحال 12 ممالک شامل ہیں۔