باجوڑ میں امن کی بحالی: کاروبار دوبارہ کُھل گئے، روزمرہ زندگی بحال، لوگ گھروں کو لوٹ آئے

باجوڑ میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشنز اور افغانستان کے ساتھ حالیہ دوحہ معاہدے  کے بعد معمولاتِ زندگی مکمل طور بحال ہو رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف  ٹارگیٹڈ آپریشنز کے بعد اب ان کے علاقے مسلح دہشت گردوں سے پاک ہو چکے ہیں اور اسی طرح 20 اکتوبر کو افغانستان کے ساتھ صلح کا معاہدہ ہونے کے بعد عام روزمرہ زندگی کا آغاز ہو چکا ہے۔

علاقے کے مکینوں نے بتایا کہ دونوں واقعات نے ان کی روزمرہ زندگی کو متاثر کیا تھا لیکن اب وہ امن اور خوشحالی کی طرف گامزن ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے بارڈر کے نزدیک تقریباً ایک ہفتے تک  جھڑپیں جاری رہی  اور دہشت گرد وقفے وقفے سے باجوڑ سمیت دوسرے بارڈر سے ملحقہ اضلاع میں بدامنی کے واقعات کرتے ہیں اور ساتھ میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں اور بدامنی پھیلانے والے عناصے کے خلاف آپریشنز بھی ہوئے ہیں۔

جولائی 2025 میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر پاکستان آرمی نے جولائی کے آخر میں باجوڑ کی تحصیل لوی ماموند میں آپریشن شروع کیا۔ انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہونے والے ان چھاپوں کو ہیلی کاپٹرز، توپ خانے اور ڈرونز کی مدد حاصل تھی اور ان میں افغانستان کی سرحد کے قریب کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ دہشت گردوں کے ساتھ جرگے کے ذریعے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد بدامنی اور فوجی آپریشنز کی وجہ سے ستمبر تک باجوڑ میں بڑی تعداد میں عسکریت پسند ہلاک ہوئے اور دیہات کو عسکریت پسندوں سے پاک کر دیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز کے کاروائیوں میں اہم کمانڈر مارے گئے اور علاقے کو کلیئر قرار دیا گیا۔

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن سجاد کاروان نے بتایا کہ باجوڑ میں گزشتہ تین ماہ سے بدامنی کی لہر تھی، لیکن اب امن قائم ہو گیا ہے۔ لوگ اپنے گھروں کو واپس آ گئے ہیں، اور اس پر پاکستانی فوج کا شاندار استقبال کیا گیا ہے۔

"آپ نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہو گا کہ جب لوگ واپس آئے تو انہوں نے پاکستانی فوجیوں کو ہار پہنائے، ان کا پُرتپاک استقبال کیا، اپنے علاقوں میں ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔”

انہوں نے کہا کہ لوگ امن کی بحالی پر خوش ہیں اور جو بازار بند تھے وہ دوبارہ کھل گئے ہیں تاہم کچھ علاقے اب بھی ایسے ہیں جہاں لوگ کسی نہ کسی طرح خوف اور غیریقنی کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چارمنگ اور دیگر علاقوں کے کچھ حصوں میں اب بھی دہشت گرد نظر آتے ہیں، جس سے عام لوگ پریشان ہیں کہ کہیں دوبارہ بدامنی کا کوئی اور سلسلہ شروع نہ ہو جائے۔

باجوڑ چیمبر آف کامرس کے صدر نے کہا کہ باجوڑ میں بدامنی کا دور گزر گیا، لوگوں کا روزگار متاثر ہوا تھا، یہاں جو بھی کاروبار تھے وہ تقریباً مکمل طور پر رُک گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب امن قائم ہو گیا ہے اور لوگوں میں خوشی کی ایک نئی لہر آئی ہے، بازاروں میں رش بڑھ گیا ہے اور لوگوں کے کاروبار دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارا کاروبار 10 فیصد تک پہنچ گیا تھا، اب وہ 50 سے 60 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔”

انہوں نے بتایا کہ بدامنی کی وجہ سے لوگ پشاور، پنڈی، لاہور اور دیگر شہروں کو چلے گئے تھے، اب وہ واپس اپنے علاقوں میں آ رہے ہیں اور خوشی کے ساتھ اپنے گھر، بازار اور کھیت آباد کر رہے ہیں۔

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے ایک زمیندار رحمان علی نے بتایا کہ ماموند کے وہ گاؤں جہاں سے لوگ نقل مکانی کر گئے تھے، اب واپس آ گئے ہیں اور انہوں نے اپنی فصلوں کی دیکھ بھال شروع کر دی ہے۔ وہ مکئی کی فصل کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور گندم، دھنیا اور دیگر سبزیوں کے لیے زمین تیار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ علاقے اب مکمل طور پر پُرامن ہیں اور لوگوں نے ان میں اپنا معمول کا زندگی گزارنا شروع کر دیا ہے۔

"لوگوں کا اپنی زمینوں پر کام اور فصلوں کی تیاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ زندگی دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ یہاں کے لوگ امن چاہتے ہیں اور امن ہی زندگی اور خوشحالی ہے۔”

نوجوانوں کے امور پر نظر رکھنے والے سماجی کارکن رحمان ولی احساس کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ ہفتوں سے لوگ کیمپوں میں تھے، بے گھری کی زندگی گزار رہے تھے اور مشکلات کا سامنا تھا، لیکن اب امن قائم ہو گیا ہے اور اس کی سب سے بڑی نشانی نوجوانوں کا کھیل کے میدانوں کی طرف رُخ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیہات میں جو کھیل کے میدان ہیں، ان میں نوجوان کرکٹ اور دیگر کھیل کھیل رہے ہیں۔

"یہاں لوگ کرکٹ کا بہت شوق رکھتے ہیں اور دیہی علاقوں میں دیکھا جا رہا ہے کہ لوگ کھیلوں کی طرف بہت زیادہ متوجہ ہوئے ہیں، لیکن باجوڑ کے مرکزی کھیل کے میدان میں اب بھی بے گھر افراد قیام پذیر ہیں، جہاں درجنوں نوجوان کھیلا کرتے تھے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس گراؤنڈ کو نوجوانوں کے لیے جلد از جلد دوبارہ کھیلوں کے لیے فعال کرے۔”

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں